اسلام آباد: عدالت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی درخواستِ ضمانت قبول کرتے ہوئے انہیں ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کے لیے سماعت اسلام آبادہائی کورٹ میں ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنیٰ سلیم پرویز نے سماعت کی۔
شاہد خاقان عباسی کی جانب سے بیرسٹر ظفر اللہ اور احسن اقبال کی جانب سے طارق محمود جہانگیری پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر ملزم نیب سے تعاون کر رہے ہیں تو گرفتاری کی کیا ضرورت ہے؟ کئی سوالات ہیں، جس کا جواب نیب نے دینا ہے۔
عدالت کے استفسار کا جواب دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانا نے کہا کہ نیب نے غیرجانبدار طور پر کام کرنا ہے جس کی تائید کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہمیں معلوم ہے نیب غیر جانبدار ہے۔ نیب کی گرفتاری سے متعلق کوئی فیصلہ عدالت میں پیش کریں۔
جواباً نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے ڈویژن بنچ کے فیصلے موجود ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیئرمین نیب کے بے پناہ اختیارات ہیں، جن پر نظرثانی بھی اتنی زیادہ ہو گی۔نیب کے پاس ایسے اختیارات بھی ہیں کہ ملزم کو معاف کرکے گواہ بنا دے۔گرفتاری کی بہت بڑی قیمت ہوتی ہے۔
اصولوں پر سوال اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پرنسپل آف پرپشنیلٹی کس فیصلے میں ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ دو فیصلے ہیں۔ ایک دو رکنی بینچ کا ہے جبکہ دوسرا بھارتی عدالت کا فیصلہ ہے۔
نارووال سپورٹس سٹی اسکینڈل کیس میں احسن اقبال کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے نیب حکام سے کہا کہ احسن اقبال کے وکیل تو دلائل دے چکے، آپ دلائل شروع کریں۔ صغراں بی بی کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ ٹھوس شواہد پر ہی گرفتاری ہوگی۔
انکوائری پر گرفتاری کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں آپ انکوائری پر گرفتار کرتے ہیں اور کہیں ریفرنس کے بعد بھی نہیں پکڑتے۔مقدمہ ثابت ہونے تک ملزم بےگناہ ہوتا ہے۔شہری کا حق آزادی اور عزت نفس مجروح ہونے سے بچانا بھی ضروری ہے۔
ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کو ملزم کی گرفتاری کا اختیار اسے آئینی حقوق سے محروم نہیں کر سکتا۔احسن اقبال کے وکیل طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ نیب کے رول سے لگ رہا ہے، نیب اغوا برائے تاوان ہے۔نیب قانون کے مطابق انکوائری سے قبل بھی ملزم کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
نیب کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری ابھی شروع بھی نہ ہو تو نیب گرفتار کرلے گا۔اس طرح تو نہیں ہوتا کہ شکایت درج ہو اور آپ گرفتار کرلیں۔پہلا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے کیسے نیب کے پاس گرفتاری کے اختیارات ہو سکتے ہیں؟
احسن اقبال کے وکیل طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ احسن اقبال کی 3 دن پہلے سرجری ہوئی اور اس کے بعد نیب کی تفتیش کا حصہ بن گئے۔کیا احسن اقبال نے اختیارات سے تجاوز کیا؟
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال کی درخواست ضمانت منظور کرلی جبکہ ایل این جی کیس میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کی ضمانت بھی منظور کر لی گئی۔ عدالت نے دونوں سابق وزراء کی رہائی کا حکم دے دیا۔
دونوں رہنماؤں کی درخواستِ ضمانت ایک ایک کروڑ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کی گئی۔ ضمانت کا فیصلہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سنایا۔ عدالت نے نیب کو حکم دیا کہ دونوں ن لیگی رہنماؤں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے جائیں۔