وزیرِ اعظم عمران خان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب، آگے کیا ہوگا؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Prime Minister Imran Khan praised the security forces for the operation in Balochistan

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آج سیاسی گہما گہمی عروج پر پہنچ گئی جب وزیرِ اعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے قومی اسمبلی پہنچے اور بعد ازاں اراکینِ قومی اسمبلی نے 178 کی تعداد میں وزیرِ اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے بیان کے مطابق عمران خان جب وزیرِ اعظم بنے تو انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کیلئے 176 ووٹس حاصل کیے تھے اور آج 2 مزید اراکین نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

آئیے حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے مابین سینیٹ کیلئے مقابلے سے لے کر آج وزیرِ اعظم عمران خان کیلئے اعتماد کے اظہار تک قومی اسمبلی سے متعلق مختلف حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ سیاسی صورتحال کو باریک بینی سے سمجھا جاسکے۔

حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ

آج سے 3 روز قبل یعنی 3 مارچ کو سابق وزیرِ اعظم اور پی پی پی رہنما یوسف رضا گیلانی نے پی ڈی ایم امیدوار کی حیثیت سے 340 کے ایوان سے 169 ووٹ حاصل کیے جس کے مقابلے میں وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ صرف 164 ووٹ حاصل کرپائے۔

سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ کے مابین سینیٹ کے انتخاب میں کہا یہ جارہا تھا کہ اگر یوسف رضا گیلانی جیت گئے تو اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد لا کر وزیرِ اعظم کی کرسی چھین لے گی۔

کہا یہ بھی جارہا تھا کہ اگر حفیظ شیخ کامیاب ہو گئے تو اپوزیشن اتحاد یعنی پی ڈی ایم لانگ مارچ کا راستہ اختیار کرے گی اور احتجاجی سیاست کے ذریعے تحریکِ انصاف کی حکومت کو منہ کے بل گرا دے گی لیکن آج وزیرِ اعظم کامیاب ہو گئے۔ 

پی ڈی ایم کا بیانیہ اور آج کی جیت 

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ جعلی وزیرِ اعظم اکثریت کھو چکے، انہیں آج ہی فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہئے کیونکہ وہ قومی اسمبلی کے اراکین کا اعتماد کھو چکے ہیں۔

ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ چینی چور، آٹا چور اور گھی چور کو حکومت کے اپنے اراکین نے مسترد کیا،۔ یوسف گیلانی کی جیت نے ثابت کیا کہ وزیرِ اعظم کے ساتھ تو ان کے اپنے لوگ بھی نہیں ہیں۔

قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپنے خطاب میں وزیرِ اعظم عمران خان نے اراکینِ اسمبلی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کچھ اراکین کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، پھر بھی قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے خاص طور پر آئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان ملکی تاریخ میں وہ دوسرے وزیرِ اعظم ہیں جنہوں نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا، قبل ازیں سن 1993ء میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے ذریعے بحالی کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ سے رضاکارانہ اعتماد کا ووٹ طلب کیا تھا۔ 

تحریکِ عدم اعتماد کا خوف ختم، نئے انتخابات کا مطالبہ مسترد

یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوسکتا ہے کہ پی ڈی ایم جو حکومت گرانا اور وزیرِ اعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹانا چاہتی ہے، وہ تحریکِ عدم اعتماد لائے گی یا نہیں؟ کیونکہ پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر یوسف رضا گیلانی جیت گئے تو تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے گی اور یوسف گیلانی تو 3 روز قبل جیت چکے ہیں۔

ایک صحافی نے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے جب یہی سوال کیا کہ تحریکِ عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ایک بار آئینِ پاکستان کا مطالبہ کر لیجئے، ایسی کوئی شق نہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد لانا ممکن ہوسکے۔

مولانا فضل الرحمان نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان سیٹ چھوڑ دیں، عہدے سے مستعفی ہوں اور ملک بھر میں نئے انتخابات منعقد کرائیں۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ فضل الرحمان کے مطالبے پر وفاقی حکومت کیا کہتی ہے؟

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ڈی ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک بے معنی اور غیر آئینی مطالبہ کیا ہے۔ ہم نے اخلاقی بنیاد پر اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ 

عمران خان کی تقریر 

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی اجلاس سے آج اعتماد کا ووٹ لینے کی تاریخ ساز کامیابی حاصل کرنے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے اراکینِ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس لیے نہیں بنا تھا کہ بھارت میں ٹاٹا برلا اور پاکستان میں نواز شریف اور زرداری کو ارب پتی بنا دیا جائے۔

سینیٹ انتخابات میں حفیظ شیخ کی شکست پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ شرمندگی کا مقام ہے کہ قومی اسمبلی میں بکرا منڈی لگ گئی، 1 ماہ سے ہم اس کی نشاندہی بھی کر رہے تھے اور الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ ہم نے بہت اچھا الیکشن منعقد کیا۔

الیکشن کمیشن کی نااہلی کو بے نقاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر سینیٹ الیکشن اچھا ہوا تھا تو بتایا جائے کہ برا الیکشن کسے کہتے ہیں؟ قوموں کو پہلے اخلاقی طور پر پست کیا جاتا ہے اور پھر معیشت تباہ کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی ایسی قوم بتائیں جس کا اخلاق تو اچھا ہو اور وہ تباہ ہو چکی ہو۔ اخلاقی طور پر گری ہوئی قوموں کی معاشی حالت اچھی نہیں ہوسکتی۔ الیکشن کمیشن پاکستان کے خفیہ اداروں سے بریفنگ لے لے۔پتہ چل جائے گا کہ سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلا۔

این آر او کا مسئلہ 

ن لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کی حالت اتنی خراب بتائی گئی تھی جیسے اگر اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ دی گئی تو وہ مر جائے گا۔ شیریں مزاری کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور شیریں مزاری کے آنسو آجائیں، یہ کوئی آسان کام نہیں۔ 

اپوزیشن پر الزام لگایا گیا کہ وہ این آر او چاہتی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم کی کوشش ہے کہ مشرف کی طرح میں بھی این آر او دے دوں۔ نواز شریف اور زرداری کو این آر او دے کر بڑا جرم کیا گیا۔ ملک اربوں روپے کا مقروض ہوگیا۔ فضل الرحمان ہمیشہ سے دونمبر آدمی رہا ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن ہمیشہ سے وزیرِ اعظم کے این آر او بیانیے کی مخالفت میں یہ کہتی آئی ہے کہ وزیرِ اعظم سے این آر او مانگا کس نے؟ ہمیں اس کا نام بتایا جائے جو این آر او مانگ رہا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اصل لڑائی این آر او کی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کس کے ساتھ ہے؟ 

وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کے بیان کے مطابق اسٹیبلشمنٹ وزیرِ اعظم عمران خان کا ساتھ دے رہی ہے۔ دراصل اسٹیبلشمنٹ سے مراد پاک فوج، آئی ایس آئی، خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جبکہ آئی ایس پی آر کے مطابق ملکی ادارے ہمیشہ جمہوری حکومت کا ساتھ دیتے ہیں۔

اگر پاک فوج اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کا ساتھ دے رہی ہے تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں۔ حکومت نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی تجویز پر اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ 

اجلاس کا بائیکاٹ کیوں؟ 

یہ بڑا اہم موقعہ تھا جب اپوزیشن اپنی رائے کا اظہار کرسکتی تھی اور کھل کر کہہ سکتی تھی کہ عمران خان! ہمیں بطور وزیرِ اعظم آپ پر اعتماد نہیں ہے۔ آپ سیٹ چھوڑ دیں۔ اگر ایسا کہنے والے افراد کے مقابلے میں نہ کہنے والے کم پڑ جاتے تو عمران خان کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں۔

تاہم اپوزیشن نے قومی اسمبلی اجلاس سے غائب رہنے کا فیصلہ کیا۔ وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ آج اپوزیشن کو اجلاس میں ضرور شریک ہونا چاہئے تھا۔ لوگوں میں جرات ہونی چاہئے کہ سرِ عام کہہ سکیں ہم نے ووٹ نہیں دینا۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ عمران خان نے ووٹ جلدی لینے کا فیصلہ کیا۔

اعتماد کا ووٹ تو مل گیا، آگے کیا ہوگا؟ شیخ رشید کے بیان کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نئی سیاسی زندگی کا آغاز کریں گے۔قومی ترقی کیلئے نت نئے منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا۔ 

Related Posts