کراچی: پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایسوسی ایشن نے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کو پاکستان سے ایران کو آم کی ایکسپورٹ بڑھانے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے مطابق ایران کے لیے ہاٹ واٹر پراسیسنگ پلانٹس کی منظوری کے عمل میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے افسران کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے ایکسپورٹرز ہاٹ واٹر ٹرٹیٹمنٹ کی من مانی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
آم کی صنعت میں مخصوص عناصر کی اجارہ داری قائم کردی گئی ہے جبکہ ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس میں کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔
ایسوسی ایشن نے وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکوریٹی اینڈ ریسرچ سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے لیے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی منظوری کے عمل میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرکے قومی تجارت اور آم کی صنعت کو نقصان پہنچانے والے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔
ایسوسی ایشن کی جانب سے وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اینڈ ریسرچ کو ارسال کردہ مراسلے میں ایران کے لیے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے معائنے اور منظوری کے عمل میں کی جانے والی بے قاعدگیوں سے آگاہ کیا ہے۔
خط کے مطابق ایرانی قرنطینہ ماہرین کی ٹیم نے گزشتہ سال آم کے سیزن سے قبل ستمبر اکتوبر میں کراچی اور کوئٹہ کا دورہ کیا اور 19ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کا معائنہ کیا جس میں سے پانچ کو ایران کو ایکسپورٹ کیے جانے والے آم کی پراسیسنگ کے لیے منظور کرلیا گیا۔
پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے پی ایف وی اے کے اراکین اور ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی سہولت فراہم کرنے والوں کو ایرانی قرنطینہ ماہرین کے دورے کے نتائج اور سے مطابق تفصیلی رپورٹ بارہا مانگنے کے باوجود آج تک نہیں شئیر کی گئی اور آج تک پی ایف وی اے رپورٹس کا انتظار کررہی ہے اس دوران پی ایف وی اے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ سے بار بار دورے کی تفصیلات سے آگاہ کرنے اور منظور نہ ہونے والے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کے دوبارہ معائنے اور ایرانی حکام کے ساتھ فالو اپ کی تحریریں درخواستیں کرتی رہی۔
پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے آم کی ایکسپورٹ کے حالیہ سیزن کے آغاز پر مئی 2020کے پہلے ہفتے میں پی ایف وی اے کو آگاہ کیا کہ ایرانی قرنطینہ حکام نے پاکستان میں پانچ ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی منظوری دی ہے۔
پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے اس تاخیری اقدام کی وجہ سے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس میں سرمایہ کاری کرنے والے ایسوسی ایشن کے اراکین کو دھچکا پہنچا کیونکہ ایرانی قرنطینہ حکام کے اعتراضات دور کرنے پر مزید بھاری سرمایہ خرچ کرنے کے بعد انہیں امید تھی کہ ایران کے لیے آم کی ٹریٹمنٹ کی اجازت حاصل کرلیں گے دوسری جانب ایران کو آم کی ایکسپورٹ بڑھانے اور ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کی لاگت میں 50فیصد کمی کے لیے پی ایف وی اے کی کوششوں کو بھی دھچکا پہنچا۔
پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی غفلت کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا، ایرانی حکام نے کرونا کی وباء کے پیش نظر پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کو مشورہ دیا کہ وہ ایرانی قرنطینہ کی جانب سے منظور نہ ہونے والے چھ ٹریٹمنٹ پلانٹس کا از خود معائنہ کرے اور ان پلانٹس میں پائی جانے والی معمولی خامیوں کی بھی نشاندہی کی تاکہ ان پلانٹس کو بھی ایران کے لیے منظور کیا جاسکے۔
پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے ایرانی حکام کے اس خط اور تجویز سے پی ایف وی اے کو بروقت آگاہ نہیں کیا اور 24جون کو ایک مراسلہ پی ایف وی اے کے لیے ارسال کیا جو پی ایف وی اے کو 27 جون کو موصول ہوا، اس خط میں پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے منظور نہ ہونے والے پلانٹس کے معائنے کے لیے ٹیم کی آمد کے فیصلے سے آگاہ کیا اس مراسلے میں معائنے کی تاریخ مقرر نہیں تھی حیرت انگیز طور پر پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے جس تاریخ کو معائنے کی اطلاع کا خط ایسوسی ایشن کو روانہ کیا اسی روز چھ میں سے تین غیرمنظور شدہ پلانٹس کا معائنہ بھی کرلیا گیا۔
پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے 30جون کی شام چار بجے ایسوسی ایشن کو بذریعہ ای میل اطلاع دی کہ غیرمنظور شدہ پچھلی معائنہ رپورٹ پر نظر ثانی کے لیے تکنیکی ٹیم اسی روز 30جون کو غیر منظور شدہ پلانٹس کا دورہ کریگی۔
اس اچانک اور غیرمتوقع دورے کے لیے پلانٹ لگانے والے اراکین کو ہنگامی طور پر تیاری کرنا پڑی پلانٹ کو معائنے کے لیے تیار کرنے میں کم از کم چھ لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے اس ہنگامی اور چند گھنٹوں کے نوٹس پر کیے جانے والے معائنے کے لیے پلانٹس مالکان نے افراتفری میں اعلیٰ معیار کے آم مہیا کیے اور انتظامی اقدامات اٹھائے۔
پی ایف وی اے کے مطابق پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی اس تمام کارگزاری کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے ایک ہی مقصد کارفرما تھا کہ کسی طرح ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کی سہولت فراہم کرنے والے منظور شدہ پلانٹس کی تعداد میں اضافہ نہ ہوسکے اور تاخیری حربوں اور افراتفری میں کیے جانے والے انسپکشن کے ذریعے سندھ میں آم کے سیزن کو اختتام تک پہنچادیا جائے۔
پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی اس غفلت کی وجہ مخصوص منظور شدہ پلانٹس کی اجارہ دائری قائم رکھنا ہے جس میں یقیناً پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے افسران کا بھی مالی مفاد پوشیدہ ہے۔ پہلے سے منظور شدہ پلانٹس آم کے ایکسپورٹرز سے 15سے 20روپے کلو ٹریٹمنٹ چارجز وصول کررہے ہیں ایران کو 30ہزار ٹن آم کی ایکسپورٹ کے حجم کے لحاظ سے صرف ٹریٹمنٹ سے حاصل ہونے والی آمدن کروڑوں روپے بنتی ہے۔
مخصوص اور منظور نظر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے نہ صرف تاخیری حربوں سے پلانٹس میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچایا بلکہ ٹریٹمنٹ کی لاگت میں کمی لاکر ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ایسوسی ایشن اور خود وفاقی حکومت کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
مزید پڑھیں:درآمدی چھوٹ سے ملک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے، ایف پی سی سی آئی