ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور نوجوان نسل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور نوجوان نسل
ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور نوجوان نسل

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پشاورہائی کورٹ نے آج سوشل میڈیا اور ویڈیو شیئرنگ کی ایپ ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس کے مندرجات نوجوان نسل کیلئے مشعلِ راہ ہیں، تاہم ٹک ٹاک پر پابندی درست ہے یا نہیں، اس کے متعلق چند نکات پر غور کرنا ضروری ہے۔

عموماً پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سمیت ملک بھر کی عدالتیں از خود نوٹس لے کر ٹک ٹاک یا دیگر ایپس پر پابندی عائد کرنے جیسے فیصلے نہیں کرتیں، بلکہ اس مقصد کیلئے درخواستیں دائر کی جاتی ہیں، دونوں فریقین کے دلائل سنے جاتے ہیں اور پھر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ایسے میں پشاور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ کیوں کیا، فیصلے کے مندرجات کیا تھے اور آئندہ پاکستان میں ٹک ٹاک اسٹارز اور اس نوجوان نسل کا مستقبل کیا ہوگا جو ٹک ٹاک کو ہی وقت گزاری کی سب سے بڑی تفریح سمیت دیگر معاملات کیلئے اہم سمجھتی ہے۔ آئیے تمام تر نکات پر غور کرتے ہیں۔

تفصیلی فیصلہ اور نوجوان نسل 

یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے جو فیصلہ جاری کیا ہے اس میں نوجوان نسل کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ ٹک ٹاک کا استعمال نوجوان نسل کیلئے نشے کی لت کی طرح ہے۔ ہم نے پی ٹی اے کو ہدایت کی ہے کہ جب تک سنسر کا طریقہ کار نہ آجائے، ٹک ٹاک ایپ بند کی جائے۔

حکم نامے کے مطابق ٹک ٹاک پر بہت سی ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں جو غیر اخلاقی مواد، فحاشی اور مخربِ اخلاق مناظر سے بھرپور اور روایات کے برعکس ہوتی ہیں جن کی جانچ پڑتال کیلئے طریقۂ کار موجود نہیں۔ کچھ ویڈیوز پر متعلقہ اداروں کو ہدایت بھی کی گئی لیکن کوئی مثبت نتائج سامنے نہ آئے۔

درخواست گزاروں کی تفصیل 

جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا، عدالتیں زیادہ تر ازخود نوٹس پر فیصلے نہیں کرتیں بلکہ فیصلے عوامی شکایات پر کیے جاتے ہیں۔ ٹک ٹاک پر پابندی کی درخواست 40 سے زائد شہریوں نے پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔

نازش مظفر ایڈووکیٹ اور سارہ علی خان نے پشاور ہائی کورٹ میں شہریوں کی جانب سے درخواست دائر کی۔ جمعرات 11مارچ کے روز عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹک ٹاک سے متعلق رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک پر پابندی سے اظہارِ رائے پر پابندی کا تاثر محسوس ہوسکتا ہے، اس لیے پابندی 1 ہفتے کیلئے لگائی جائے، نازش مظفر نے کہا کہ ٹک ٹاک سے متعلق آزادی مذہبی روایات اور آئین کے خلاف ہے۔ 

پی ٹی اے کا مؤقف

ڈی جی پی ٹی اے نے پشاور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ ٹک ٹاک نامی ویڈیو ایپ کا آفس پاکستان میں نہیں ہے بلکہ سنگاپور میں ہے جس کی ویڈیوز کو سنسر کرنا، فلٹر کرنا یا ہٹانا پی ٹی اے کے بس کی بات نہیں ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر سنسر نہیں کرسکتے تو پابندی لگانا ہی واحد حل ہے۔

ایک تکلیف دہ حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ ٹک ٹاک پر ایسا مواد بھی اپ لوڈ کیا جاتا ہے جو دیکھنے کے لائق نہیں، بعض نوجوانوں نے ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہوئے خودکشی کر لی۔ 

فواد چوہدری کا بیان

ٹک ٹاک پر پابندی آج نہیں لگائی گئی بلکہ پابندی 5 روز قبل جمعرات کے دن لگائی گئی تھی (فیصلہ آج جاری کیا گیا) جس پر ردِ عمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کی پاکستان کے عوام کو بڑی قیمت چکانا ہوگی۔

وزیرِ سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر ججز ٹیکنالوجی کے کام کرنے کے ماڈلز کا علم نہیں رکھتے۔ میں چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کروں گا کہ وہ مداخلت کریں۔ وزارتِ سائنس  وٹیکنالوجی عدلیہ کے ساتھ مل کر اس مسئلے پر کام کرے گی۔ 

ٹک ٹاک کا ردِ عمل 

عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ایک بیان میں ٹک ٹاک انتظامیہ نے 4 روز قبل کہا کہ ہم نے پاکستان میں مواد کی نگرانی کی صلاحیت کو 250 فیصد تک بڑھایا ہے اور ہم مقامی قوانین کی پاسداری کیلئے پر عزم ہیں۔ نامناسب مواد کو ہٹا دیا جائے گا۔

انتظامیہ نے کہا کہ ہم اس پلیٹ فارم پر ٹک ٹاک پالیسیوں کے مطابق صارفین کے تخلیقی اظہار کے حق کو بھی یقینی بنائیں گے۔ امید ہے کہ ہم کسی ایسے حل تک پہنچ سکیں جس سے پاکستان کے لاکھوں صارفین بھی ٹک ٹاک سے مستفید ہو سکیں۔ 

آزادئ اظہارِ رائے اور ٹک ٹاک 

پاکستانی معاشرے کیلئے کس حد تک نازیبا مواد قابلِ قبول ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی بنائی ہوئی فلمز کے معیار سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ٹک ٹاک پر پابندی سوشل میڈیا اسٹارز کیلئے وبالِ جان ثابت ہوئی ہے۔

بعض دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کے خستہ گھروں میں چھوٹے چھوٹے اسٹوڈیوز قائم کیے گئے اور غریب لوگوں نے بھی اچھے موبائل خرید کر لائٹنگ کرکے اچھی اچھی ویڈیوز بنائیں اور ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کیں۔

ویڈیو ایڈیٹر سے لے کر رائٹر، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور کیمرہ مین تک کے فرائض ان لوگوں نے خود سنبھالے۔ جب کوئی ٹک ٹاکر 20 سیکنڈز میں کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جو آپ کو کچھ سکھا دے یا چہرے پر مسکراہٹ لے آئے تو حیرت ہوتی ہے۔ یہ آزادئ اظہار ہے جو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہوئی۔ 

مثبت اور منفی اثرات 

بلاشبہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مثبت اثرات بھی ہیں، مثال کے طور پر جو فحاشی، عریانی یا بے حیائی ٹک ٹاک کے استعمال سے پھیل رہی تھی، وہ اب بند ہوچکی ہے، لیکن جسے بے حیائی کی تلاش ہو، وہ تو اسے کہیں بھی تلاش کرسکتا ہے، صرف ٹک ٹاک ہی کیوں؟

اگر بے حیائی کو روکنا ہی مقصود ہے تو فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز بھی بند کردینے چاہئیں۔ پشاور ہائی کورٹ سمیت ملک کی اعلیٰ عدلیہ، وفاقی وزراء اور وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی ایسے مسائل کے تدارک کا کوئی قابلِ عمل طریقہ سوچنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر ٹک ٹاک اسٹارز سمیت تمام تر سوشل میڈیا اسٹارز کا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے۔ 

Related Posts