بائیک چلانے والی پاکستان کی بہادر لڑکیاں

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Pakistan’s brave biker girls

نیلی موٹرسائیکل پر بیٹھی مرینا سید  کا کہنا ہے کہ بس میں سفر کرنے سے ہمیشہ میری زندگی متاثر ہوتی تھی۔ میرے دفتر کے اوقات ، میری قابلیت، سب سے بڑھ کر اس نے میرا بہت زیادہ وقت ضائع کیا ، مرینا ان چند خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے میں موٹرسائیکل چلانے کی ہمت کی۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے آفس کا وقت 6 سے 11 بجے تک تھا ، مجھے اسٹاپ پر بس کے لئے رات دیر تک انتظار کرنا پڑتا تھا اور اکثر مجھے زائد کرایا ادا کرنا پڑتا کیونکہ میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ چنگ چی ایک بہتر آپشن تھا لیکن افسوس کہ اس پر پابندی عائد کردی گئی۔

کاریں چونکہ مہنگی تھیں اس لیئے مرینا نے مردوں کی طرح موٹر سائیکل چلانے کا فیصلہ کیا۔ان کے دوستوں نے موٹرسائیکل سکھانے میں مددکی اور مرینا کو بائیک اسٹارٹ کرنے، گیئرز شفٹ کرنے ، رکنے اور ہر وہ چیز بتائی جس کی ان کو ضرورت تھی۔

Pakistan’s brave biker girls

اکیسویں صدی میں بھی پاکستان میں خواتین بائیک چلانے میں بے حد جھجھک محسوس کرتی ہیں کیوں کہ پاکستان میں خواتین کے لئے موٹرسائیکل رکھنا ایک نامناسب عمل سمجھا جاتا ہے ،خواتین کو مردوں کے درمیان موٹرسائیکل چلانے میں پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب میں نے موٹر سائیکل پر سوار ہونا شروع کیا تو لوگوں کا ردعمل مضحکہ خیز تھا۔لوگ میرا راستہ روکتے،مجھے سڑکوں پر جگہ نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ لوگوں  کے بائیک کو میرے پاس سے جان بوجھ کر گھمانے کی وجہ سے میں موٹر سائیکل کو سنبھالنے کی جدوجہد کرتے ہوئے دو بار گری بھی تھی ۔شائدلوگ بائیک چلانے کی وجہ سے ہمارے بارے میں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اس لیئے مرد بائیکر ہمیں سڑک پر ہراساں کرتے ہیں۔

یہ سلسلہ یہاں نہیں رکتا بلکہ ان خواتین کی تصاویر بنائی جاتی ہیں حتیٰ کہ انہیں زبانی طور پر بھی طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Pakistan’s brave biker girls

ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں گاڑی چلانے والی ہر عورت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مرد اکثر خواتین ڈرائیورز کے انتہائی قریب گاڑی چلاتے ہیں جس سے نہ صرف خواتین کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک بڑے حادثے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یہ ہراسانی خواتین کو باہر نکلنے سے روکنے کا ایک اہم عنصر بھی ہے۔

پاکستان میں موٹرسائیکل چلانا صرف مردوں کا کام سمجھا جاتا ہے،موٹرسائیکل نقل و حمل کا ایک ذریعہ ہے اور اس کا صنف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر بھی یہ مردوں کے لئے قبول کرنا آسان نہیں ہے کہ خواتین بھی موٹرسائیکل چلا سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جنسی تفریق اب بھی قائم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نابالغ لڑکا موٹرسائیکل چلا رہا ہے لیکن عورت کے گاڑی چلانے پر اعتراض ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ عورت کے موٹرسائیکل پر سوار ہونے سے مردوں میں  ایسا احساس پیدا ہوتا ہے کہ اسے اب زندہ رہنے کے لئے مرد کی ضرورت نہیں ہے۔

ذرا فرض کریں کہ ایک بوڑھا باپ بیمار ہے اور گھر میں دواء نہیں ہے۔ ایک عورت کے علاوہ کوئی نہیں ہے: توآپ کیا کریں گے؟ کیا کسی عورت کو دواء  لانے کے لئے موٹرسائیکل سوار عورت سے موت یا  تکلیف بہتر ہے؟

خواتین کو موٹر سائیکل پر سوار ہونے کی ترغیب دینا ان پر تنقید کرنے کی بجائے ہمیشہ ایک بہتر آپشن ہوتا ہے۔ خواتین اور موٹرسائیکل ایک طاقتور امتزاج ہیں۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ موٹرسائیکلیں آزادی ، اور نقل و حرکت کا بہترین ذریعہ ہے۔

Pakistan’s brave biker girls

پاکستان میں خواتین بائیک چلانے والوں کی معاونت سے دوسری خواتین کو سواری کی تحریک مل سکتی ہے جس سے ان کی زندگی کو مثبت انداز میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ وہ جہاں کہیں چاہیں سواری کرسکتی ہیں ، گھریلو کام کاج میں مدد کرسکتی ہیں ، اپنے بچے کو اسکول چھوڑ اور لاسکتی ہیں جس سے بہت زیادہ وقت بچایا جاسکتا ہے۔

معاشرے میں ایک مضحکہ خیز رائے ہے کہ خواتین کاموٹرسائیکل چلانا مناسب نہیں ہے تاہم اگر خواتین اپنے ارادوں پر قائم رہیں تو یہ سوچ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے گی۔

مشکلات کے باوجود مرینا اور اس کی دوستیں آج بھی اپنی بائیکس روزانہ نکالتی ہیں۔ انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ اس امید کے ساتھ بائیک چلاتی ہیں کہ ایک دن لوگوں  کا رویہ ان کے حق میں بہتر ہوجائیگا اور ان کی زندگی آسان ہوجائیگی۔

Related Posts