آن لائن فراڈ کے پاکستانی نیٹ ورک نے امریکی ایجنسیوں کو چکرا کر رکھ دیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو غیرملکی میڈیا

امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی اور لینڈرپولیس نے ہیکنگ اور فراڈ میں استعمال ہونے والے ٹولز کی فروخت کرنے پر پاکستان میں موجود ایک نیٹ ورک کی 39 ویب سائٹس کو بند کردیا۔

امریکی محکمہ انصاف اور ایف بی آئی کے مطابق اس پاکستانی نیٹ ورک کو صائم رضا عرف ”ہارٹ سینڈر“ چلا رہا تھا۔ اس نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے دوران ”ہارٹ سینڈر ڈاٹ کام“ نامی ویب سائٹ بھی بند کی گئی ہے۔

نیڈر لینڈ پولیس کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ”ہارٹ سینڈر“ نامی ایک ایسے گروہ کا نام ہے جو آن لائن فراڈ میں استعمال ہونے والے سوفٹ ویئرز بنا رہا تھا۔

نیدرلینڈز کی پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 2020 تحقیقات کے دوران ایک ملزم کے کمپیوٹر سے جعلسازی میں استعمال ہونے والا ایک سوفٹ وئیر برآمد ہوا تھا جس کے بعد سائبر کرائم ٹیم نے تحقیقات آغاز کردیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ ویب سائٹس کے امریکی ایف بی آئی حکام نے کچھ ایسی دستاویزات بھی جمع کرائیں ہیں جس کے مطابق صائم رضا ان “سائبرکرائم ویب سائتس کو چلا رہا تھا جہاں فراڈ اورہیکنگ میں استعمال ہونے والے ٹولز فروخت کئے جارہے تھے۔

ایف بی آئی کے مطابق صائم رضا کے نیٹ ورک نے یہ ٹولز بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں کو بھی فروخت کیے جنہوں نے ان کا استعمال کرتے ہوئے امریکا میں بھی لوگوں کو فراڈ کا نشانہ بنایا اور شہریوں 30 لاکھ امریکی ڈالر سے محروم ہونا پڑا تھا۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق صائم رضا نیٹ ورک کی سرگرمیوں کے حوالے سے کہا کہ یہ گروہ بیرونِ ملک مقیم ہے لیکن ان کی بنائی گئی ویب سائٹ کے ذریعے وہ آسانی سے پیسوں کے لیے یہ ہیکنگ ٹولز پھیلا رہے تھے۔

امریکی محکمہ انصاف کا اپنے بیان میں کہا ہے کہ بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں نے ان ٹولز کا استعمال کاروباری ای میلز کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جہاں سائبر مجرم جھانسہ دے کر متاثرہ کمپنیوں کو کسی تیسرے فریق کو پیسے ارسال کرنے پر مجبور کرتے تھے۔

یہ پیسے دراصل مجرموں کے اکاؤنٹس میں ہی جا رہے ہوتے تھے اور اس کے نتیجے میں متاثرہ افراد کو مالی نقصانات اُٹھانا پڑتے تھے۔

سائبر سکیورٹی ماہرین کہنا ہے کہ اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ لوگ اپنے موبائل فونز میں غیرمستند یا کسی انجان مقام سے کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ نہ کریں اور کسی بھی انجان ای میل یا میسج میں وجود لنکس پر کلک کرنے سے گریز کیا جائے۔

Related Posts