وزیر اعظم عمران خان نے بلین ٹری سونامی منصوبہ دیا اور عالمی اداروں نے اس کی تعریف کی۔ کہا گیا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے زبردست اقدامات اٹھا رہا ہے۔ تو پھر دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں آج لاہور اور کراچی سرِ فہرست کیوں ہیں؟
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، ائیر کوالٹی انڈیکس کا مطلب ہوا کا معیار ہے۔ جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں اس میں آکسیجن، نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ ساتھ مضر صحت گیسز مثلاً کاربن مونو آکسائیڈ کی بھی ایک خاص مقدار شامل ہوتی ہے۔
انسان آکسیجن جسم کے اندر لے جاکر جب سانس باہر چھوڑتے ہیں تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بن چکی ہوتی ہے۔ یہی کاربن ڈائی آکسائیڈ پودے جذب کرتے ہیں اور بدلے میں آکسیجن دیتے ہیں اور یوں سانس کے ساتھ زندگی کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔
پاکستان کا ائیر کوالٹی انڈیکس
ملک بھر میں فضائی آلودگی کے اعتبار سے 287 کے ائیر کوالٹی انڈیکس کے ساتھ لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے جبکہ کراچی 5ویں نمبر پر ہے۔ شہرِ قائد کا ائیر کوالٹی انڈیکس 153 ریکارڈ کیا گیا ہے۔
دنیا کے دیگر آلودہ ترین شہروں میں بھارتی دارالحکومت دلی اور ہنوئی شامل ہیں جو دنیا کے بالترتیب دوسرے اور تیسرے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں جس سے ایسے تمام شہروں میں عوام کو درپیش سانس کی بیماریوں کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔
ائیر کوالٹی انڈیکس اور انسانی صحت
ماہرین کا کہنا ہے کہ ائیر کوالٹی انڈیکس کا ہماری جسمانی صحت اور خاص طور پر سانس سے منسلک پھیپھڑے کی بیماریوں سے گہرا تعلق ہے۔ائیر کوالٹی انڈیکس میں اضافے سے کھانسی، نزلہ زکام، دمہ اور دیگر سانس کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ائیر کوالٹی انڈیکس 0 سے 50 تک رہے تو ہوا کو بہت اچھا اور صحت مندانہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر 51 سے 100 تک جا پہنچے تو ہوا معتدل سمجھی جاتی ہے جس سے بہت کم تعداد میں شہریوں کے بیمار ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر ائیر کوالٹی انڈیکس 101 سے 150 تک ہو تو اسے حساس افراد کیلئے غیر صحت مندانہ سمجھا جاتا ہے تاہم عام افراد اب بھی ایسی فضا میں سانس لے کر تندرست رہنے کے قابل ہوتے ہیں، یعنی ایسی ہوا نقصان دہ تو ہوتی ہے لیکن زیادہ نہیں۔
آگے چلیے تو ائیر کوالٹی انڈیکس 151 سے 200 تک ہوجانے پر ماہرین ایسی ہوا کو غیر صحت مندانہ اور مضرِ صحت قرار دیتے ہیں جس سے عام افراد کو کھانسی، نزلہ اور دیگر سانس کے مسائل پیش آتے ہیں جبکہ حساس افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
یہی انڈیکس اگر 201 سے 300 ہو تو ماہرین ہوا کو بہت غیر صحت مندانہ قرار دیتے ہیں جس سے تمام ہی افراد بیمار ہوسکتے ہیں جبکہ اگر ائیر کوالٹی انڈیکس 300 سے زائد ہو تو ایسی ہوا کو زہریلا قرار دے دیا جاتا ہے جو ہر ایک کو نقصان پہنچاتی ہے۔
فضائی آلودگی میں اضافے کی وجوہات
انسان نے حالیہ کچھ صدیوں میں بے حد و حساب ترقی کی ہے اور گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سواری کرنے والے افراد آج کل لگژری گاڑیوں اورہوائی جہازوں میں سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
فیکٹریوں سے کیمیائی فضلہ نکلتا ہے جو بخارات بن کر ہوا میں شامل ہوجاتا ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں کچرے سے نجات حاصل کرنے کیلئے اسے صاف یا ری سائیکل کرنے کی بجائے آگ لگا دی جاتی ہے جس سے کاربن مونو آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔
آلودگی سے نجات کیسے ممکن ہے؟
جنگلات انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہیں جو دنیا کے مختلف خطوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن چھوڑتے اور فضائی آلودگی میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کو انسانی آبادیوں سے دور ہونا چاہئے جبکہ دھواں چھوڑنے والی موٹر سائیکلز اور بسوں کی جگہ الیکٹرک گاڑیاں استعمال کرکے فضائی آلودگی کے مسائل پر بتدریج قابو پایا جاسکتا ہے۔