وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستانی طالبان ہتھیار ڈال دیں تو انہیں معاف کردیں گے، معاملات کے عسکری حل کے حق میں نہیں ہوں، ہم امن کیلئے بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے کچھ گروپ امن کیلئے بات چیت کرنا چاہتے ہیں ، حکومت انہیں غیر مسلح کرنے کیلئے مذاکرات کر سکتی ہے۔مذاکرات کامیاب ہوں گے یا نہیں ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ ٹی ٹی پی سے افغانستان میں ہونیوالے مذاکرات میں افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
عمران خان وزیراعظم پاکستان بننے سے پہلے سے طالبان کیخلاف عسکری قوت کے استعمال کے مخالف رہے ہیں جبکہ افغانستان میں افغان طالبان کے غلبے کے بعد ان کے خیالات مزید پختہ ہوگئے ہیں تاہم حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تحریک طالبان پاکستان کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دیا جاچکا ہے۔ پاکستانی طالبان اغوا برائے تاوان، لوگوں کو قتل کر کے سر قلم کرنے اور بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
4 دسمبر 2009ء کو انہوں نے 17 نمازی بچوں سمیت چالیس افراد کے قتل اور راولپنڈی میں مسجد کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 70ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانی شہریوں کو خود کُش بم دھماکوں میں شہید کر چکے ہیں۔ طالبان نے جہاں فوجی اداروں پر حملے کر کے ہزاروں پاکستانی فوجی جوانوں کو شہید کیا وہاں اِن کی سفاکی کا نشانہ اسکول کے بے گناہ بچے بھی بنے ،آرمی پبلک اسکول پشاور کے سیکڑوں معصوم بچوں کو اسکول میں گھس کر شہید کیا گیا اور خواتین اساتذہ کو بچوں کے سامنے زندہ جلا دیا گیا۔
کالعدم تحریک طالبان کی پاکستان میں کارروائیاں اب بھی جاری ہیں اور وزیراعظم پاکستان کہتے ہیں کہ پاکستانی طالبان ہتھیار ڈال دیں تو انہیں معاف کر دیں گےاوروہ عام شہری کی طرح رہ سکتے ہیں۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو عمران خان نے حملوں کی ایک لہر قرار دیکر نظر انداز کردیا ہے۔ دوسری جانب ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے ملک میں جاری دہشت گرد حملے عارضی طور پر روکنے کا اعلان کیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان بھی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیلئے بہتر پوزیشن میں آچکا ہے ،حکومت کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان سے وفاکرناچاہتے ہیں، ایسے لوگوں کو ریاست کو یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ زندگی کے دھارے میں واپس آ سکیں تاہم اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو معافی دینے کی بات پرمعترض دکھائی دیتی ہیں۔
ٹی ٹی پی کو معافی دینے کی بازگشت کے دوران ہمیں ایک بات ضرور مدنظر رکھنا ہوگی کہ حال ہی میں امریکی سینیٹ میں افغان طالبان کی مدد کے الزام میں پاکستان پر پابندیوں کی سفارش کی جاچکی ہے جبکہ امریکا کی نائب وزیرخارجہ وینڈی شرمین آئندہ ہفتے دورہ پر پاکستان آرہی ہیں اور اپنے دورہ سے قبل امریکی نائب وزیر خارجہ نے پاکستان پر ملک اور افغانستان میں عسکریت پسندوں سے مفاہمت کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے دورے سے قبل تمام شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرے۔
حکومت کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ماضی میں جب بھی پاکستان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے وہ ناکام ہوئے اور کالعدم جماعت کے حملوں میں اضافہ ہوتا رہا اور افغان طالبان کے کابل میں غلبے کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر ٹی ٹی پی کے حملوں میں تیزی آئی ۔ گوکہ یہ افغان طالبان یہ واضح کرچکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہوگی تاہم یہ بھی اہم ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنا ہی ایک حصہ مانتے ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان کا نقطہ نظر صد فیصد درست ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ دونوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنا کسی صورت مناسب نہیں ہے اور کالعدم تحریک طالبان سے ماضی میں بھی مذاکرات کی کوششیں ہوتیں رہیں لیکن ٹی ٹی پی دہشت گردانہ کارروائیوں سے امن کی فضاء سبوتاژ کرتی رہی۔ حکومت دہشت گرد تنظیم سے مذاکرات میں تمام مثبت و منفی پہلوؤں کو لازمی مد نظر رکھے تاکہ ملک میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اور امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔