پاک بھارت جنگ بندی معاہدہ، آگے کیا ہوگا؟

مقبول خبریں

کالمز

zia-1-1-1
بازارِ حسن سے بیت اللہ تک: ایک طوائف کی ایمان افروز کہانی
zia-1-1-1
اسرائیل سے تعلقات کے بے شمار فوائد؟
zia-1-1
غزہ: بھارت کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 پاکستان اور بھارت کی جانب سے سرحدی کشیدگی کم کرنے کیلئے جنگ بندی پراتفاق کیا ہے اور 2003 کی جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، جمعہ 25 فروری 2021 کو ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان بات چیت میں سرحدوں پر امن کیلئے خصوصی بات چیت میں کشیدگی کم کرنے پر اتفاق ہونے کے بعد امن کی امید جاگ اٹھی ہے اور ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ کیاواقعی دونوں فریقین اس عزم کی پاسداری کر سکتے ہیں جس سے پردونوں نے اتفاق کیاہے؟، اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں دونوں فریقین کے تاریخی تناظر کاتجزیہ کرنے کی ضرورت ہے

ہمارا ماننا ہے کہ ڈی جی ایم اوز نے ’انتہائی واضح اور دوستانہ‘ میٹنگ کی لیکن دونوں اطراف کے عوام موجودہ جنگ بندی کے مستقبل کے بارے میں جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ 16 سال پہلے بھی سرحد ی کشیدگی کم اور ایل او سی کی خلاف ورزی ختم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔

جنگ بندی کا اصل معاہدہ 2003 میں ہوا تھا لیکن اس روح پر کبھی عمل نہیں ہوا،بھارت لائن آف کنٹرول اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں معاہدے کی تمام شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کررہا ہے اور 5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں کوئی رعایت نہیں دیکھی گئی۔

اس بیان کے اہم حصوں میں سے ایک جس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی وہ تھی تعلقات کو ختم کرنے والے بنیادی امور کو حل کرنے کی وابستگی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ باہمی فائدہ مند اور پائیدار امن کے حصول کے مفاد میں دونوں ڈی جی ایم اوز ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور خدشات کو حل کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔

واقعتاً دونوں اطراف کی عسکری قوتوں کی جانب سے یہ اہم کوشش ہے اور ہم سبھی جہاں2003 میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد جنگ بندی پر راضی ہونے پر ہندوستان کی تعریف کرینگے وہیں ہمیں میجر جنرل نعمان زکریا اور لیفٹیننٹ جنرل پرمجیت سنگھا کی بھی تعریف کرنا ہوگی کیونکہ خوشگوار ماحول میں آزادانہ گفتگو سے سرحد کے دونوں اطراف کے عوام کے لئے قیام امن کے لئے ایک قدم آگے بڑھا ہے۔

یہاں غور طلب سوال یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے حالیہ جنگ بندی سے متعلق معاملہ اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ نظر آرہا ہے یہ حقیقت کچھ اور ہے یا مستقبل میں کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ بے شک ، ہم سب پوشیدہ مفادات کو جاننا چاہتے ہیں کیونکہ خطے کے حالات تبدیل ہورہی ہیں اور اب نئی امریکی حکومت چین کی معاشی نمو کو کسی بھی طرح سے کم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔

چین کے خلاف خطے میں امریکا کا پراکسی ہونے کے ناطے بھارت کوشش کر رہا ہے کہ چین کو سرحدوں پر ہلچل سمیت مختلف محاذوں پر الجھانے پر توجہ دی جائے اورایل او سی پر سیز فائر سے ہندوستان کو چین کے خلاف محاذوں پر توجہ دینے میں مدد ملے گی۔

دوم یہ ایک کوشش ہوسکتی ہے کہ دنیا کی توجہ اس مسئلے سے ہٹ جائے جو واقعتاً ہندوستان کے زیرتسلط مقبوضہ جموں و کشمیر کے چل رہا ہے۔ تمام تر دباؤ کے باوجود بھارت نے اقوام متحدہ کے مبصرین ، انسانی حقوق کے ارکان اور بین الاقوامی میڈیا کو مقبوضہ علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔

جنگ بندی کے بعد اگلے قدم کے طور پر ہندوستان بین الاقوامی مبصرین کو آزادانہ طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دے گا۔

تیسرا یہ کہ تمام زیر حراست اور گرفتار کشمیری رہنماؤں کو فوری طور پر رہا کیا جائے گا اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی جگہ دی جائے گی بصورت دیگر جنگ بندی محض نظر کا دھوکہ ہوگی۔

دفاعی ماہرین اس معاہدے کومقبوضہ جموں و کشمیر کی اصل صورتحال سے توجہ ہٹانے اورسانس لینے کا موقع قراردے چکے ہیں۔

بھارت پاکستان کے مابین جنگ بندی کے معاہدے پر 2003 میں معاہدہ کیا گیا تھا جس کو سن 2014 میں بھارت نےکشمیرمیں مظالم میں شدت لانے کے لئے یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا تھا۔

اب پاکستان بھارت سے کشمیرمیں امن اور انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے اور عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ پروپیگنڈا روکنے کے لئے حقیقی معنوں میں مزید اقدامات کرنے کو کہے گا۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے بجا طور پر جنگ بندی کو دونوں ممالک کے مابین امن اور ہم آہنگی کی طرف پہلا قدم قرار دیا ہے۔ وہ ان ماننے والوں میں سے ایک ہیں کہ پاکستان ہندوستانی حکومت سے کشمیر کی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے پرمطالبہ کریگا۔

بھارت نے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے کہ پاکستان کیساتھ جنگ کی حکمت عملی بری طرح ناکام ہوچکی ہے اورحال ہی میں منظرعام پر آنے والے تمام جعلی اقدامات کے بعد عالمی سطح پر تمام اقوام نے اصلی ہندوستانی چہرہ دیکھ لیا ہے۔

اب امید ہے کہ ہندوستان کی منفی تشخص کو بحال کرنے کیلئے وزیر اعظم مودی خطے کے ممالک کے مابین تمام دیرینہ مسائل کے حل کے لئے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کرنے کے لئے آگے آئیں گے۔

علاقائی ممالک کی ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن (سارک) سربراہ اجلاس ہندوستانی تسلط پسندانہ طرز عمل کی وجہ سے اب برسوں سے زیر التوا ہے لیکن اب تمام ممالک کو قیام امن کی کوششوں میں شامل کرنے،غربت ، معاشی کساد بازاری ، تجارت اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجوں کے خلاف مشترکہ کوششیں شروع کرنے کے لئے جلد از جلد اجلاس طلب کیا جانا چاہئے۔

اگرچہ خدشہ ہے کہ ایل او سی کی خلاف ورزی کرنے سے ہندوستان خود کو روک نہیں سکتالیکن ہم سب دعا کریں گے کہ جنگ بندی طویل عرصے تک برقرار رہے اورپاکستان کو ایل او سی پر جنگ بندی کے بعد کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کیلئے چوکس رہنے کی ضرورت ہے یہ بھارت کی جانب سے جنگ بندی کشمیر میں جاری مظالم سے توجہ ہٹانے یا کسی نئی مہم جوئی کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ جب تک کشمیر میں حالات بہتر نہیں ہوتے اوراور دو طرفہ تعلقات معمول پر نہیں آتے تب تک جنگ بندی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔

آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد اسد درانی کا خیال ہے کہ ہمیں ہندوستانی ذہنیت میں کسی تبدیلی کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ ہندوستان کی پالیسی جاری رہے گی اور کشمیرکے خطے میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے جنگ بندی کو ہندوستان کے لئے مہلت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے کچھ اسٹریٹجک فوائد کے لئے عارضی فائر بندی کی ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔

پاکستان اور مسئلہ کشمیر پر کام کرنے والی تنظیمیں بھارت کے زیر تسلط کشمیرکے میں ہونے والے مظالم کو اجاگر کرتی رہیں گی اوردونوں طرف کی سول سوسائٹی ایک دوسرے کے خلاف ہندوستان اور پاکستان حکومتوں کے نمونے ڈیزائن کے خلاف آواز اٹھاتی رہے گی۔

ضرورت اس بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کثیر النسل قومیں ہیں اور آپس میں رواداری کے ذریعہ ہم آہنگی اور پرامن ہمسایہ کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ علاقائی امن و خوشحالی کا انحصار دونوں ممالک کے پرامن رہنے پر ہے۔

Related Posts