واشنگٹن: ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے جمعرات کو کہا کہ پاکستان ایسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے جو بالآخر جنوبی ایشیا سے باہر، حتیٰ کہ امریکا کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان فائنر نے کہا کہ اسلام آباد کی سرگرمیاں پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے مقاصد کے بارے میں “سنگین سوالات” پیدا کرتی ہیں۔
جان فائنر نے کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “صاف گوئی سے کہا جائے تو پاکستان کی یہ سرگرمیاں ابھرتے ہوئے خطرے کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتیں۔”
انہوں نے مزید کہا، “پاکستان نے بیلسٹک میزائل سسٹم سے لے کر بڑی راکٹ موٹرز کے تجربات کرنے والے آلات تک انتہائی جدید میزائل ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔ اگر یہ رجحانات جاری رہے تو پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا سے بہت دور، حتیٰ کہ امریکہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت ہوگی۔”
یہ بیان اس وقت دیا گیا جب واشنگٹن نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا، جن میں سرکاری دفاعی ادارے پر بھی پابندیاں شامل ہیں جو اس پروگرام کی نگرانی کرتا ہے۔
ارم فاطمہ ترک کی پیپلز پارٹی میں شمولیت، خیبر پختونخوا میں پارٹی کو مضبوط بنانے کا عزم
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک فیکٹ شیٹ کے مطابق اسلام آباد میں قائم نیشنل ڈیویلپمنٹ کمپلیکس نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام اور میزائل تجرباتی آلات کے لیے پرزے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
دیگر ادارے جن پر پابندیاں عائد کی گئیں ان میں کراچی میں موجود “افیلیئٹس انٹرنیشنل”، “اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ”، اور “راک سائیڈ انٹرپرائز” شامل ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے این ڈی سی اور تین تجارتی اداروں پر امریکی پابندیوں کو “بدقسمتی اور جانبدارانہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ امن اور سلامتی کے مقصد کے خلاف ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے بیان میں کہا، “پاکستان امریکی پابندیوں کو بدقسمتی اور جانبدارانہ سمجھتا ہے۔ پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتیں اس کی خودمختاری کے تحفظ اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔”
دفتر خارجہ نے مزید کہا، “یہ پابندیاں خطے میں عسکری عدم توازن کو بڑھانے کے لیے ہیں، جو نہ صرف ہمارے خطے بلکہ اس سے باہر بھی اسٹریٹجک استحکام کے لیے خطرناک نتائج کا باعث بن سکتی ہیں۔”