بر صغیر کے مسلمانوں کی جہد مسلسل کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا ۔انتھک محنتوں اور کاوشوں کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی اخلاص پر مبنی کاوشوں کے بعد جب یہ ملک پاکستان قائم ہوا تو اک تاثر یہ تھا کہ اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک اسلامی نظام حکومت کو لے کر آگے کی جانب بڑھے گا اور مسلمانوں کو اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو گذارنے میں آسانیاں ہوں گی۔
قیام پاکستان کے بعد سے اس وطن عزیز کے مخالفین اور منفی قوتوں نے اس ملک کو سنبھلنے اور آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا، قیام سے اب تلک منفی قوتیں اپنے مضموم منفی مقاصد کے حصول کے لیے وطن عزیز میں امن و استحکام کی جانب بڑھنے والے اک فرد سے لے کر جم غفیر تک کو، سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو سازشوں کے ذریعے بڑھنے نہیں دیتی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد بر صغیر میں موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد نے ہجرتیں کیں اور پاکستان میں آ کر سکونت کے ساتھ اپنی زندگیوں کو گذارنے کی کاوشیں کیں۔
ان کاوشوں میں گو کہ انہیں قدرے ناکامی ہوئی تاہم اس مقصد کیلئے محنتوں کا یہ سلسلہ اب تلک جاری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1965 میں 6 ستمبر کا وہ دن آیا کہ جب بھارت نے اپنے لاؤ لشکر لے کر پاکستان پر حملہ کیا۔ بھارتی سرکار کی یہ سوچ تھی کہ وہ پاکستان کو اپنے قبضے میں لے کر یہاں کی عوام کو اپنا غلام بنائے گی اور یہ ملک ان کے قبضے میں رہے گا۔ ان مقاصد کے لیے انہوں نے 6 ستمبر 1965 میں پاکستان پر حملہ کیا اور وہ حملہ وطن عزیز پاکستان کی عوام نے اپنی افواج کے ساتھ مل کر ناکام بنا دیا۔
تاریخ اس جنگ کو کبھی نہیں بھولے گی ، اس پاکستان کی افواج کے ساتھ عوام نے اک صف اور اک جگہ کھڑے ہو کر دشمنان ملک و ملت کا مقابلہ کیا اور ان کو واپس بھاگنے پر مجبور کیا وہ دن شاہد ہے کہ کسی بھی ملک کی عوام اپنی افواج کے ساتھ جب دشمنان ملک کے خلاف کھڑی ہوں گی تو ان کا مقابلہ بہت مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔
یوم دفاع پاکستان اس دن کی یاد میں ہر سال حکومتی سطح پر منایا جاتا ہے اور اس بات کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے بلکہ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے دشمنوں سے ہر محاذ پر لڑیں گے اور انہیں شکست دیں گے۔ اس عزم کو لے کر افواج پاکستان کے ساتھ عوام یکجا ہوتی ہے اور اس عزم کا مشترکہ طور پر اظہار بھی کرتی ہے۔
کسی بھی ملک کی عوام اگر اپنے دشمنوں کے آگے کھڑی ہو جائے اور اپنی افواج کے شانہ بشانہ لڑے تو اس ملک کو شکست دینا ناممکن ہے، ہمارے سامنے پڑوسی ملک افغانستان کی مثال ایک واضح صورت میں موجود ہے، وہ ملک کہ جس پر قابض ہونے کے لیے اس دنیا کی نام نہاد سپر پاورز نے انفرادی و اجتماعی کاوشیں کیں تاہم انہیں افغانستان کی عوام کے جذبہ جہاد کے سامنے شکست فاش ہوئی اور آج افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی حکومت جس طرح سے ترقی کے منازل طے کر رہی ہے یقینا ایک تاریخ ساز اور قابل تعریف عمل ہے۔
یوم دفاع پاکستان اس بات کی عکاس ہے کہ ہمارے عوام کو جب تلک بنیادی سہولتیں اور آسانیاں نہیں دی جائیں گی وہ افغان عوام کی طرح یا کسی بھی ایسے ملک کی طرح جس کی عوام افواج کے ساتھ اپنے ملک کے دفاع کے لیے ایک صف میں کھڑے ہونے کے لیے تیار ہو ، نہیں کھڑی ہوگی ، کیونکہ ہماری عوام جن حالات سے گذر رہی ہے یقینا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری عوام افواج کا اس طرح سے ساتھ نہیں دے پائے گی گو کہ عوام میں ملک کیلئے جذبہ خدمت و جذبہ خیر سگالی ملک بے انتہا ہے تاہم بنیادی مسائل موجود ہیں اور ان کی ہی وجہ سے عوام کو انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں سخت اور کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
موجودہ سال کے یوم دفاع پر وطن عزیز کے حکمرانوں اور منتظمین کو اس بات پر غور و خوض کرنا ہوگا کہ اس ملک کی عوام کے لیے وہ کون سے مثبت اقدامات کر رہے ہیں۔ انہیں ان باتوں اور انہی طرح کے نکات پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ صرف غور ہی نہیں عمل بھی کرنا ہوگا، عوام کو جب سہولتیں حاصل ہوں گی تو وہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے وطن عزیز کی بہترین خدمت کریں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس ٹیلنٹ کا استعمال مثبت راستوں کی عدم دستیابی کے باعث منفی سرگرمیوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور پھر بڑھتا چلا جائیگا ، جس کے منفی اثرات انفرادی طور پر ہی نہیں اجتماعی طور پر بھی سامنے اتے ہیں۔
یوم دفاع پاکستان پر عوام کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لیے اور عوام کے جذبات و احساسات کو سامنے رکھتے ہوئے مثبت کاموں کی جانب صرف زبانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر آنا ہوگا۔ جب اس طرح سے اگے بڑھیں گے تو یقینا وطن عزیز کی 25 کروڑ عوام پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار ہوگی۔
یوم دفاع کے موقع پر یہ بھی عوامی تقاضا ہے کہ برسوں سے امریکی قید میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کاوشوں کو مثبت انداز میں مکمل کرنے کا عملی مظاہرہ کیا جائے، وہ قوم کی بیٹی جسے سابقہ حکمرانوں نے چند ہزار ڈالرز کے عیوض بیچ دیا تھا اس قوم کی بیٹی کو امریکی قید سے نجات دلانے کے لیے اسے واپس باعزت رہائی دلانے کے لیے حکومت پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
یوم دفاع پاکستان اس بات کا بھی تقاضہ کرتا ہے کہ وطن عزیز میں عوام جو بجلی کے بلوں کی ادائیگی سے محروم ہوتی جا رہی ہے، مہنگائی کی چکی میں پستی چلی جا رہی ہے، یہ عوام ایسی صورتحال میں ملک کے لیے آخر کیا مثبت کام کر سکتی ہے؟ عوام کو جب اپنی روز مرہ ضروریات کو پورا کرنے کی فکر نے ہی اپنے اندر ڈبو دیا ہو تو وہ عوام کیسے ان مسائل سے نکل کر ملک کی ترقی کے لیے کام کرے گی۔
جب تک حکومت اور ذمہ داران عوام کے لیے ٹھوس اور حقیقت پر مبنی کام نہیں کریں گے اس وقت تک عوام سے اچھی امیدیں رکھنا ایک خام خیال کے برابر ہے، اس لیے یوم دفاع پاکستان کے دن اس بات کا عزم ہونا چاہیے کہ جس طرح 1965 میں عوام نے افواج کا ملک کے دفاع کے لیے ساتھ دیا تھا اسی طرح کا ساتھ اب بھی دے گی لیکن اس کے لیے عوام کی پریشانیوں کو دور کرنا ہوگا، یوم دفاع پاکستان پر انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم اس بات کا عہد بھی اسی صورت میں کریں گے جب ہمیں اس ملک کی عوام کو مصائب ختم کرتے ہوئے مشکلات کو دور کرتے ہوئے ان کے لیے اسانیاں اور سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
ہاں اس ہی صورت میں ملک کی عوام ڈٹ کر دشمنان پاکستان کا اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر مقابلہ کریں گے اور ان کو ناکام بنائیں گے بالکل اس طرح جس طرح سے 1965 میں دشمنوں کی سازشوں و حملوں کو بنایا تھا، انشاءاللہ ۔ ۔ ۔