پاکستان میں پلازما تھراپی کے ذریعے کورونا وائرس کا علاج، کامیابی ملنا شروع ہو گئی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں پلازما تھراپی کے ذریعے کورونا وائرس کا علاج، کامیابی ملنا شروع ہو گئی
پاکستان میں پلازما تھراپی کے ذریعے کورونا وائرس کا علاج، کامیابی ملنا شروع ہو گئی

کورونا وائرس پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا کے 100 سے زائد ممالک کورونا وائرس کی دوا تیار کرنے کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکا، چین، روس اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی طبی ماہرین کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

دوسری جانب آج حیدر آباد سے ایک بڑی خبر موصول ہوئی جہاں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز کے تعاون سے سول ہسپتال میں ایک معمر مریضہ کا علاج جاری ہے۔

سول ہسپتال میں  کورونا وائرس کی مریضہ کا علاج پلازما تھراپی کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پلازما تھراپی کیا ہے؟ کیا یہ کورونا وائرس کا حتمی علاج ثابت ہوسکتی ہے اور کیا اس سے عالمی وباء ختم ہوجائے گی؟

پلازما تھراپی کسے کہتے ہیں؟

کورونا وائرس کا ابھی تک کوئی باضابطہ علاج دریافت نہیں ہوا، اس لیے جو لوگ وائرس سے صحتیاب ہوئے ہیں، ان کا خون حاصل کرکے اسے وائرس کے علاج کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جس میں خون کا ایک خاص حصہ استعمال ہوتا ہے جسے پلازما کہتے ہیں۔

پلازما سے مراد خون کا وہ شفاف حصہ ہوتا ہے جس سے خونی خلیے الگ کر لیے جاتے ہیں۔ اس میں اینٹی باڈیز، پروٹین اور دیگر غذائی اجزاء شامل ہوتے ہیں  جو انسانی جسم کو وائرس کے خلاف مدافعت فراہم کرتے ہیں۔

انسانی خون میں سرخ اور سفید خلیوں کے ساتھ ساتھ 55 فیصد حصہ پلازما پر مشتمل ہوتا ہے جس میں 90 فیصد پانی ہوتا ہے۔ پلازما کے صرف 10 فیصد حصے میں اینٹی باڈیز اور غذائی اجزاء ہوتے ہیں جو مدافعت میں کام آسکتے ہیں۔ 

اہم بات یہ ہے کہ انسانی جسم کا مدافعتی نظام آسانی سے کسی بیرونی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اس لیے پلازما تھراپی کے ذریعے علاج میں پیچیدگیاں پیش آسکتی ہیں، تاہم وائرس کے علاج میں یہ طریقہ انتہائی اہم سمجھا جارہا ہے۔

جب پلازما کسی شخص کے جسم میں منتقل کردیاجاتا ہے تو اس شخص کو ایک گیر فعال مدافعت ملتی ہے جو اس وقت تک کوئی اثر نہیں کرتی، جب تک پلازما کے اجزاء فعال نہ ہوجائیں۔ یہ عمل درجنوں روز سے لے کر مہینوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

پلازما تھراپی کی تاریخ 

حقیقت یہ ہے کہ پلازما تھراپی کوئی نئی تکنیک نہیں ہے۔ دنیائے طب میں پلازما تھراپی کا استعمال ایک طویل عرصے سے جاری ہے جو دہائیوں پر  محیط ہے جس کے دوران کسی بیماری سے صحتیاب ہونے والے افراد سے مدد لی جاتی ہے۔

سن 1890ء میں پلازما تھراپی کا پہلا تجربہ کیا گیا۔آج سے 130 سال قبل اسپینش فلو کی وباء پھیلی جس نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا دی اور لوگ ایک ایک کرکے مرنے لگے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 18ویں صدی عیسوی کے دوران 5 کروڑ افراد اسپینش فلو کے باعث لقمۂ اجل بن گئے جو عالمی جنگوں میں ہونے والے جانی نقصان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

اسپینش فلو کے ساتھ ساتھ ایبولا، سارس اور وائرس سے ہونے والی دیگر بیماریوں کا علاج بھی پلازما تھراپی کے ذریعے کیا جاچکا ہے، تاہم اس کا تجربہ ایسے مریضوں پر کیاجاتا ہے جن میں قوتِ مدافعت کمزور ہوتی ہے۔

تھراپی کے اہل مریض

تمام مریضوں کو پلازما تھراپی کے عمل سے نہیں گزارا جاسکتا جس کی وجوہات میں خون کی دستیابی، انسانی جسم کا ردِ عمل اور الگ الگ انسانوں میں علیحدہ علیحدہ قوتِ مدافعت شامل ہیں۔

ایسے مریض جن کی جان کو کورونا وائرس کے باعث خطرہ ہو، صرف انہیں پلازما تھراپی کے عمل سے گزارا جاتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں تقریباً 85 فیصد مریض وائرس سے اپنی قوتِ مدافعت کے بل پر خود ہی صحتیاب ہوجاتے ہیں۔

صحتیاب ہونے والے افراد کا پلازما لے لیاجاتا ہے لیکن تمام افراد اپنا خون دینا پسند نہیں کرتے، نہ ہی انسانی جسم سے اتنی مقدار میں خون لیا جاسکتا ہے جو تمام مریضوں کیلئے کافی ہو، اس لیے پلازما تھراپی کا عمل کم مریضوں کیلئے ممکن ہوسکتا ہے۔

پلازما تھراپی کے اہل مریضوں میں خاص طور پر معمر افراد، شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض اہم ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا جسم کمزور قوتِ مدافعت کے باعث وائرس کا مقابلہ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

واحد طریقۂ علاج 

کورونا وائرس کے باقاعدہ علاج اور ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث پلازما تھراپی ہی وہ واحد طریقۂ علاج نظر آتا ہے جس کے بل بوتے پر انسانیت کو اموات سے بچایا جاسکتا ہے۔

اب تک کورونا وائرس کے باعث  دنیا بھر میں 47 لاکھ 22 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد 3 لاکھ 13 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایسے میں پلازما تھراپی کرکے سینکڑوں افراد کو موت سے بچایاجاسکتا ہے۔

طریقۂ علاج پر عمل پیرا ممالک 

پاکستان کوئی واحد ملک نہیں جہاں کورونا وائرس کے علاج کیلئے پلازما تھراپی کو آزمایا جارہا ہے بلکہ امریکا کے 1 ہزار 500 سے زائد ہسپتال پلازما تھراپی پر پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔

امریکا میں 600 سے زائد مریض پلازما تھراپی کے استعمال سے صحتیاب ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان میں اب تک صرف 1 مریض صحتیاب ہوا جبکہ دوسری خاتون مریضہ پر تھراپی کا استعمال جاری ہے جس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے۔

ویکسین اور باضابطہ علاج کی ضرورت

کورونا وائرس کا حتمی علاج ضروری ہے کیونکہ پلازما تھراپی کے ذریعے ہر مریض کا علاج ممکن نہیں اور نہ ہی تمام مریض پلازما تھراپی پر راضی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خون سے لیے گئے پلازما کے استعمال سے قبل طویل ٹیسٹنگ کا عمل ضروری ہوتا ہے۔

پلازما تھراپی کے استعمال میں بداحتیاطی کے باعث خون کے ذریعے منتقل ہونے والی بیماریاں مثلاً ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوسکتے ہیں، اس لیے پلازما تھراپی کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے۔

ماہرینِ طب نے پلازما تھراپی کو جادوئی علاج قرار دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر مریض پلازما تھراپی سے صحتیاب نہیں ہوتا، اس لیے ہم کورونا کی ویکسین اور باضابطہ علاج پر تحقیق جاری رکھیں گے۔ 

Related Posts