مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

معروف عالمِ دین جلال الدین رومی نے ایک بار کہا تھا کہ جو تکلیف آپ محسوس کرتے ہیں، وہ ایک پیامبر ہوتی ہے، اس کی بات ضرور سنیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سمجھداری عمر کے ساتھ ساتھ آجاتی ہے لیکن عمر کا حکمت سے درحقیقت کوئی تعلق نہیں۔

ہر سال اکتوبر جو میری سالگرہ کا مہینہ ہے، میں اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو قلمبند کرتا ہوں تاکہ اِس بات کی نشاندہی کی جاسکے کہ میں نے گزشتہ برس کے دوران کیا حاصل کیا۔ چاہے مجھے اس کیلئے مضامین کا ڈھیر تحریر کرنا پڑے یا صرف مختصر نوٹ، میں یہ سب کچھ ڈائری میں محفوظ رکھتا ہوں۔

ہر بار جب میں پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو میرے اعصاب کے ساتھ کوئی مختلف واقعہ رونما ہوتا ہے۔ بعض اوقات جذبات ضدی ہوجاتے ہیں کبھی کبھی یہ دورانِ بیداری ہوتا ہے کہ کسی خوشی، غم یا پھر کسی اور جذبے کے باعث آپ رو پڑتے ہیں۔

چاہے یہ دماغ میں موجود کوئی بڑا غم ہو، دل کا روگ ہو یا سوچوں کی نہ ختم ہونے والی بحث، یہ تمام احساسات ہمیں پریشان کرتے ہیں اور مجھے بھی بے تاب کرتے ہیں لیکن میرے تمام پریشان کن سوالات کا جواب یہ قول ہے کہ تکلیف کچھ نہیں ہوتی، اس سے مجھے اپنے آپ کو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ایک خاص موڑ پر آ کر میں ہنستا بھی ہوں کہ گزشتہ برس میں نے کتنی بڑی بے وقوفی کی یا میں ٹکڑوں میں بھی بٹ سکتا تھا کیونکہ جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، انہیں سنبھالنا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ جب بھی میں ان تحریری نوٹس کو دیکھتا یا پڑھتا ہوں، مجھے اِس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مجھے تکالیف اور غم سے جو نقصان پہنچا، وہی میرا بہترین استاد ہے۔

شاید ہی کبھی آپ نے اس کی آواز سنی ہو لیکن اپنے درد کو سننے کی کوشش اسے سمجھنے کا ایک اور طریقہ ہے۔ بہت سے کامیاب مفکرین اسی موڑ سے ترقی کرتے ہیں جہاں سے وہ یہ سوچنا شروع کریں کہ زندگی نے ان کے ساتھ کیا کیا اور اب وہ کیا کرنا پسند کریں گے؟

کہا جاتا ہے کہ طلوعِ فجر سے پہلے ہمیشہ تاریکی ہوتی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آگے کیا ہوگا۔ زندگی پانسے کا سکہ پھینکنے جیسا معاملہ ہے جہاں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اچھی قسمت یا بری قسمت کے امکانات کو سمجھنے کیلئے کتنے سمجھدار واقع ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حقیقت صرف آپ کو غلط ثابت کرنے کیلئے ہی سامنے آجائے۔ 

جب اچھی قسمت سامنے آتی ہے تو ہمیں چاہئے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور مسکرائیں۔ اتنا زیادہ مسکرائیں کہ آپ کا جبڑا تھک جائے۔ احمقانہ قسم کے لطیفوں پر بھی اونچی آواز میں ہنسیں۔ اطمینان کے ہر لمحے کو یادگار بنا کر محفوظ رکھیں تاکہ آپ اپنا اچھا وقت ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہوسکیں۔

اور جب کبھی بد قسمتی بن بلائی مہمان بن کر آپ کے روبرو آئے تو اس سے خوفزدہ نہ ہوں، اس کا بھی دل سے استقبال کریں اور گلے لگاتے ہوئے بغیر کوئی سبق سیکھے اسے جانے مت دیں۔

سقراط کا کہنا ہے کہ بغیر سمجھوتہ کیے جیے جانا زندگی کہلانے کے لائق نہیں۔ جس طرح نعمتوں کی ناشکری نہیں کی جاسکتی، بالکل اسی طرح نقصانات کی اہمیت کا انکار بھی مت کریں۔

یہاں یہ بات دہرانا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ  جن تکالیف سے آپ کو گزرنا پڑتا ہے وہ پیامپر ہوتی ہیں اور آپ کو چاہئے کہ ان کی بات ضرور سنیں۔

قصہ مختصر کہ آپ اپنی زندگی میں بے شمار مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں لیکن آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسے لوگوں، مسائل اور مشکلات سے بھاگنے کی بجائے ان کی بات ایک بار ضرور سنیں۔ درد کو محسوس کریں کیونکہ اِس احساس کی برسہا برس کی ریاضت آپ کو مضبوط سے مضبوط تر بنائے گی۔

یاد رکھئے گا کہ ماں کی گود سے حاصل کیا ہوا علم پوری زندگی گزارنے کیلئے کافی نہیں ہوتا، درد اِس علم کو تقویت عطا کرتا ہے، پریشانیوں سے بھاگنے کی بجائے ان سے نمٹنا سیکھیں۔ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ زندگی کو بہتر بنانے کا طریقہ بھی سیکھتے ہیں۔ ہر روز زندگی کو بہتر بنانے کیلئے کام ضرور کریں۔

ای گرن کا مشہور قول ہے کہ میں اب وہ نہیں رہا جو ایک سال پہلے تھا اور ہوسکتا ہے کہ صرف اسی مرتبہ مجھ میں جو تبدیلی آئی ہے وہ میرے لیے بہتر ہو۔

آپ تکلیف کے ساتھ خود آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور خود کو وقت کے ساتھ بدلنا سیکھتے ہیں جس سے ہر گزرتے برس کے ساتھ آپ ایک مختلف اور بہتر سے بہتر شخصیت بن کر اُبھرتے ہیں۔ 

Related Posts