نیویارک: زمین کو سورج کی نقصان دہ تابکار شعاعوں سے محفوظ رکھنے والی اوزون تہہ کی حفاظت کا عالمی دن آج دنیا بھر میں منایا جارہا ہے تاکہ اس حوالے سے عوام الناس میں شعور پیدا کیاجا سکے۔
زمین کی سطح سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر پائی جانے والی اوزون تہہ آکسیجن کے تین حصوں سے ترتیب پانے والے مالیکیولز پر مشتمل ہوتی ہے۔ قدرتی طور پر زمین کے اوپر موجود اس تہہ کو نقصان پہنچنے کا علم 70ء کی دہائی میں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: سائنسدانوں نے کروڑوں سال پہلے یورپ سے ٹکرا کر گم ہونے والا براعظم دریافت کرلیا
اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچنے یا اس کے خاتمے کی صورت میں دنیا بھر میں گرمی انتہائی شدید ہوجائے گی جس میں نوعِ انسان کی زندگی ناقابل یقین حد تک دشوار ہوگی جبکہ زمین پر موجود بڑے بڑے گلیشیئر جن میں پاکستان کا سیاچن اور انٹاکٹیکا کا پورا براعظم شامل ہیں، پگھل جائیں گے اور سمندر کی سطح اتنی بلند ہوجائے گی کہ دنیا کے بیشتر ساحلی شہروں جزوی یا مکمل طور پر ڈوب سکتے ہیں۔
دنیا کے بڑے اور اہم ساحلی شہروں میں رباط (مراکش)، لسبن (پرتگال) ، برسٹ (فرانس)، ڈبلن (آئرلینڈ)، کوپن ہیگن (ڈنمارک)، فزوہو (چین)، پتایا (تھائی لینڈ)، عدن (یمن)، ڈکال (سینیگال) ، کراچی (پاکستان) اور ممبئی (بھارت) شامل ہیں جبکہ چھوٹے اور غیر اہم ساحلی شہر اور ملائشیا جیسے جزیروں پر مشتمل ممالک بھی زمین پر پائے جاتے ہیں جن کا سمندر کی سطح میں اضافے کے بعد شاید وجود بھی نظر نہ آسکے۔
اقوامِ متحدہ نے 1994ء میں 16 ستمبر کو اوزون کی حفاظت کا عالمی دن قرار دیا اور اعلان کیا کہ ہر سال یہ دن دنیا کے ہر ملک کو منانا چاہئے تاکہ اس حوالے سے دنیا بھر میں شعور پیدا ہو اور عوام اوزون کی حفاظت کے لیے پر عزم ہوں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق اوزون کی حفاظت کے لیے ماحولیاتی آلودگی ختم کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر فضائی آلودگی کے حوالے سے عوام کو آگاہی دینا بہت ضروری ہے تاکہ فیکٹریوں کی چمنیوں، گاڑیوں اور ٹرانسپورٹ کے دھویں کو ختم یا کم کرکے اوزون کی حفاظت ممکن بنائی جاسکے۔
مزید پڑھیں: رات کے وقت زمین سے خارج ہونے والی حرارت کو بجلی میں بدلنے کا حیرت انگیز نظام