یوکرین روس بحران اور تیل کی منڈیاں

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کمیونسٹ مخالف مظاہروں نے وسطی اور مشرقی یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جبکہ احتجاج کا سلسلہ پولینڈ سے شروع ہو کر پورے سوویت بلاک میں پھیل گیا ہے۔

یوکرین میں جنوری 1990 میں 4 لاکھ سے زیادہ افراد کو ہاتھ سے ہاتھ منسلک کرکے ایک انسانی زنجیر بناتے ہوئے دیکھا گیا  جو یوکرین کے شمال وسطی حصے میں مغربی شہر ایوانو فرینکیوسک سے دارالحکومت کیف تک تقریباً 400 میل تک پھیلا ہوا تھا۔

ڈاکٹر محمد شہباز کے مزید کالمز پڑھیں:

پاکستان میں معاشی کارکردگی کی حقیقت

نارملسی انڈیکس اور پاکستان

بہت سے لوگ نیلے اور پیلے یوکرین کے جھنڈے کو لہرارہے تھے جس پر سوویت دور حکومت میں پابندی لگا دی گئی تھی جبکہ یوکرین اپنے رقبے کے اعتبار سے امریکی ریاست ٹیکساس کے برابر ملک ہے جو روس اور یورپ سے منسلک ہے۔ 

آج سے 31 سال قبل یعنی 1991 تک یوکرین سوویت یونین کا حصہ تھا اور یہاں اس کے بعد سے ایک بہت ہی کمزور اورکمزورجمہوریت پر مبنی حکومت قائم ہوئی جو روس نواز اور پرو یورپ کے درمیان ڈگمگاتی رہی۔ یہ یوکرائن ہوا کرتا تھا لیکن 1991 میں سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد اس کا نام بدل کر صرف یوکرین ہو گیا۔

یہ فرق درحقیقت موجودہ بحران کو سمجھنے کے لیے کافی اہم ثابت ہوتا ہے۔ یوکرین کی بیرونی طاقتوں کے زیر تسلط رہنے کی ایک بہت طویل جبکہ قومی آزادی کی بہت مختصر تاریخ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ ملک یوکرین کے نام سے پہچانا جاتا ہے جس کے بارے میں بہت سے مؤرخین کے خیال میں قدیم زبان میں بارڈر لینڈ سمجھا جاتا ہے جس کا مطلب وطن بھی ہوسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جسے یوکرینی قوم پرست اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق تشکیل دیتے ہیں۔ 

جنگ کا مرکز کریمیا اور ڈونباس کے کچھ حصوں پر ہے جنہیں بین الاقوامی سطح پر یوکرین کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی خاص طور پر 2021 سے 2022 کے درمیان شروع ہوئی جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ روس یوکرین پر فوجی حملہ کرنے پر غور کر رہا ہے۔

روس یوکرین کے نیٹو کے ساتھ مزید مربوط ہونے کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس نے مطالبہ کیا ہے کہ فوجی اتحاد نیٹو مشرق کی طرف یوکرین یا دیگر سابق سوویت ریاستوں تک نہ پھیلے۔

روس نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ نیٹو وسطی اور مشرقی یورپ میں اپنی فوجی تعیناتیوں کو واپس لے۔ یوکرین روس بحران پر کشیدگی دو ماہ سے زیادہ عرصے سے بڑھ رہی ہے، اس مسئلے کو حل کرنے کی سفارتی کوششوں میں پیش رفت کے بہت کم آثار دکھائی دے رہے ہیں۔

دنیا بھر میں روس تیل کے بڑے پیداکار ممالک میں سے تیسرے جبکہ قدرتی گیس کے بڑے پیداکاروں میں سے دوسرے نمبر پر موجود ہے، جودُنیا کی دو اہم ترین معیشتوں یعنی امریکا اور چین کو سب سے زیادہ توانائی فراہم کرنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔

دو سال قبل یعنی 2020 میں روس نے امریکی پیٹرولیم اور خام تیل کی درآمدات کا 7فیصدفراہم کیا جس سے وہ سعودی عرب کے ساتھ  دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل کا  سپلائر بن گیا۔

یہ ایک ممکنہ وجہ ہے کہ امریکا نے حالیہ دنوں میں یہ اشارہ دیا کہ روس کے خلاف پابندیوں کا مقصد ملک کے توانائی کے شعبے پر نہیں ہو گا۔ اس کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو 11 ارب ڈالر کی گیس پائپ لائن بنانے والی کمپنی کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا۔

اس کے علاوہ امریکی صدر نے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر جلد ہی ماسکو پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ یوکرین میں جنگ اس ملک کی اہم پائپ لائنوں میں بھی خلل ڈال سکتی ہے جو یورپ کو قدرتی گیس فراہم کرتی ہے۔

روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک میں فوج کی تعیناتی کے بعدبڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی اور یوکرین پر حملے کا خطرہ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور اسٹاک مارکیٹس کو کریش کرنے کا سبب بنا ہے۔ برینٹ کروڈ آئل کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں، جو ستمبر 2014 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

جہاں مغرب روسی حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دے رہا ہے، وہیں بڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی اور یوکرین میں حملے کے خطرے نے تیل کی قیمتوں میں اضافے اور اسٹاک مارکیٹس کو کریش کر دیا ۔ یکم دسمبر 2021 سے تیل کی قیمتوں میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب یہ69اعشاریہ 5 ڈالر پر ٹریڈ کر رہی تھی۔ روپیہ بھی 33 پیسے یا صفر اعشاریہ44 فیصد گر کر 74اعشاریہ84 امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

تیل کی قیمتوں میں یہ اضافہ بنیادی طور پر سپلائی سائیڈ میں خلل پڑنے کے خدشے کے باعث ہوا ہے کیونکہ روسی صدر کی جانب سے علیحدگی پسند علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک میں فوجیوں کی تعیناتی کے بعد یوکرین میں روسی حملے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یوکرین پر روسی حملے سے نہ صرف عالمی سطح پر خام تیل کی سپلائی متاثر ہو سکتی ہے بلکہ امریکہ اور یورپ کی طرف سے پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔

دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کے بعد سپلائی پر خدشات کے باعث تیل کی قیمتیں گزشتہ چند ماہ سے بڑھ رہی ہیں۔ اومی کرون لہر کے تھمنے کے بعد عالمی معیشت کے کھلنے اور معمول پر آنے کے بعد طلب اور رسد کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم توازن پر بھی تشویش ہے۔

تیل کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں پہلے ہی امریکہ میں پیٹرول کی قیمتوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ امریکی شہری کچھ مارکیٹس میں ایک گیلن گیس کے لیے تقریباً ایک ڈالر زیادہ ادا کر رہے ہیں جو کہ پچھلے سال کی نسبت تقریباً 5 ڈالر ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دنیا کی تیل کی تقریباً 10 فیصد سپلائی کے لیے ذمہ دار روس کے خلاف پابندیاں یورپ کی توانائی کی سپلائی میں خلل اور پوری دنیا میں مہنگائی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تناؤ توانائی کی منڈیوں میں گڑبڑ کا سبب بن سکتا ہے، مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کے خدشات طول پکڑتے جارہے ہیں۔

بشکریہ معاونت کار:

رضوان اللہ
اسکول آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس
بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بیجنگ، چین۔
ای میل:rezwanullah1990@yahoo.com

Related Posts