اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25-A ریاست کو 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیار کی تعلیم فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے تاہم حکومت اس قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں ناکام رہتی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی شہری ہونے کے باوجود بنگالی تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔
صاحب استطاعت لوگ اپنے بچوں کو نجی اسکول بھیجتے ہیں اورجو لوگ نجی اسکولوں کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ان کیلئے سرکاری اسکول ہی واحد امید ہے لیکن پاکستانی بنگالی سرکاری اسکول کے آپشن سے بھی محروم ہیں۔
پاکستان میں بسنے والے بہت کم بنگالیوں نے پرائمری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے اورشاید ہی کسی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہو۔ 1971 کے بعد جب معرض بنگلہ دیش وجود میں آیا توبہت سارے بنگالیوں نے نئے ملک کے لئے پاکستان کوچھوڑ دیا تھا لیکن بہتر مواقع کی تلاش میں 1980 کی دہائی میں دوبارہ پاکستان لوٹ آئے تاہم ان میں سے بہت کم لوگ پاکستانی این آئی سی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
کورنگی میں رہائش پذیر ایک رہائشی کاکہنا ہے کہ پاکستانی ہونے کے باوجود ان کوملک میں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ غلط دستاویزات کی وجہ سے ان کی زندگی متاثر ہورہی ہے جبکہ قومی شناختی کارڈ جاری نہ کرنا بھی پاکستان بنگالی برادری کو درپیش بڑا مسئلہ ہے۔
حکام شناختی کارڈ کے اجراء کی امید تو دلاتے ہیں لیکن کوئی وقت معین نہیں ہے کہ کب شناختی کارڈ ملیں گے۔قومی شناختی کارڈ کو شناخت کے ثبوت کے طور پر پاکستان کے ہر شہری کو جاری کیا جاتا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے کئی دہائیوں سے ملک کے شہری ہونے کے باوجود بنگالیوں کو سی این آئی سی جاری نہیں کیا جاتا ہے۔
جس سے پاکستانی بنگالیوں کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں کیونکہ سی این آئی سی کے بغیر وہ عوامی خدمات جیسے اسپتالوں اور اسکولوں سے استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ کوئی پراپرٹی نہیں خرید سکتے ہیں اور نہ ہی بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں۔ سی این آئی سی نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے حصول سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں پیدا ہونیوالے اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں، بنگالیوں کو بنیادی تعلیم سے روک دیا گیا ہےاور وہ اپنے حق کیلئے نہیں بھی لڑ سکتے۔ یہاں تک کہ اگر وہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے وہ نویں جماعت سے فارغ ہوجاتے ہیں۔
بنگالیوں کا کہنا ہے کہ ہماری برادری کو سب سے بڑا تعلیم کا حصول ہے ،ہمارے بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ۔میٹرک کے امتحانات کے وقت انہیں اسکول سے بے دخل کردیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس بی فارم نہیں ہوتے ہیں۔ سرٹیفکیٹ نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین کے پاس بھی نہیں شناختی دستاویزنہیں ہیں۔
پاکستانی بنگالی بچے کورسز بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہر ادارہ بنیادی دستاویزات طلب کرتا ہے جو ان کے پاس نہیں ہوتیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ غیر معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر بنگالی ماہی گیر ہیں۔
کچھ بنگالی ماہی گیری کے سیزن میں اوسطاً کمائی دس ہزار روپے ماہانہ تک محدود ہے۔ دوسری طرف بہتر مواقع کے خواہاں بنگالیوں سے رشوت مانگی جاتی ہے جس کا وہ متحمل نہیں ہوسکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس تعلیم اور نوکری نہیں ہے۔ ملازمت کے نام پر محض صفائی ستھرائی کے کام ملتے ہیںاور یہاں تک کہ اس نوکری کیلئے ہمیں بھی رشوت ادا کرنا پڑتی ہے جس کی قیمت لگ بھگ 2 سے 4 لاکھ ہے جبکہ ہمارے لئے اتنی بڑی رقم جمع کرنا ناممکن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بنگالی والدین کو ہمیشہ یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اسکول جانے سے قاصر رہنا ان کے بچوں کو منشیات کی لت یا اغوا جیسے جرائم میں ملوث ہونے جیسے دیگر خطرات کا شکار بنا سکتا ہے۔
تقسیم کے بعد تقریبا 30 تیس سال گزر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے بنگالیوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔ یہ برادری مستقل عدم تحفظ کی حالت میں جی رہی ہے۔ ہر نئی حکومت نئے وعدوں کے ساتھ آتی ہے لیکن یہ وعدے ہمیشہ خواب ہی رہتے ہیں۔
سلیمہ بھٹو