ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے خود کو اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد سے بچانے کے لئے کوششیں تیز کردی ہیں، بلیک میل نہ ہونے کے اپنے دعوؤں کے باوجود، وزیر اعظم نے اتحادی جماعتوں اور ناراض اراکین کو راضی کرنے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے آخری دم تک بزدار کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا تھا، لیکن عدم اعتماد کی بولی میں حمایت حاصل کرنے کے لیے سخت فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ بالآخر بزدار کو مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے استعفیٰ دینا پڑا، پرویز الٰہی پرویز مشرف کے دور میں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور دوبارہ اپنے عہدے پر واپس آگئے ہیں۔
تاہم پنجاب اسمبلی میں پرویز الٰہی کے لیے یہ ہموار سفر نہیں ہوگا کیونکہ انہیں سخت مخالفت اور حتیٰ کہ اندرونی اختلافات کا بھی سامنا ہے۔ پرویز الٰہی کو عہدہ سونپنے پر پی ٹی آئی کے ارکان میں ناراضگی بھی ہوگی کیونکہ مسلم لیگ (ق) کے پاس اسمبلی میں صرف 10 نشستیں ہیں۔ تجربہ کار سیاستدان صوبے کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے ٹھوس پوزیشن میں ہوں گے۔ جب سے وہ منتخب ہوئے تھے تب سے بزدار کی برطرفی کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں لیکن وہ وزیر اعظم کی حمایت کی وجہ سے اقتدار میں رہے۔
پنجاب کی سیاست ملک کے لیے اہم ہے کیونکہ اس کا وفاقی حکومت پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ اپوزیشن نے آخر کار بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی، جس کی وجہ سے بالآخر انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ مسلم لیگ ق نے حالیہ برسوں میں اپنی حمایت میں کمی دیکھی ہے اور وہ وزارت اعلیٰ کے ساتھ اپنی سوئی ہوئی قسمت بحال کرنے کی امید کرے گی۔
پی ٹی آئی اپنے ناراض اتحادیوں کو منانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کو ایک اور وزارت دی جا رہی ہے اور پارٹی کے منحرف قانون ساز واپس جارہے ہیں، حزب اختلاف بھی پریشان دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ تصویر کا رخ بدل رہا ہے، یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تختہ الٹنے کے لیے غیر ملکی سازش کی جا رہی ہے اور اپوزیشن اس میں شامل ہے۔
پاکستان سیاسی انتشار کا شکار ہے جو معاشی اور جمہوری صورت حال کے لیے اچھا نہیں ہے۔ دونوں فریقوں کو چاہئے کہ ایسے اقدامات نہ کریں جس سے قوم کو نقصان پہنچے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور تحریک عدم اعتماد شاید تار تار ہو جائے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں ابھی منتخب وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔