سائنس دانوں نے اپنی نئی تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وبا کے معتدل کیسز والے مریض بھی طویل المعیاد کوروناعلامات کا سامنا کرتے ہیں۔
طبی ماہرین کا اس سے قبل ماننا تھا کہ طویل المعیاد علامات کی صورت حال شدید کورونا کیسز میں پیدا ہوتی ہے لیکن نئی تحقیق میں یہ خیال غلط ثابت ہوا، کووڈ کے معتدل کیسز میں بھی علامات کئی ماہ تک برقرار رہتی ہیں جن میں تھکاوٹ، سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور دیگر شامل ہیں۔
امریکا کی یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسین میں ہونے والی تحقیق میں لانگ کووڈ کا مشاہدہ ان مریضوں میں کیا جو وبا کے متعدل کیسز کا شکار تھے جنہیں اسپتال جانے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی، لیکن حیران کن طور پر مذکورہ مریض بھی طویل المعیاد کورونا علامات کا شکار ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا سمیت دیگر ممالک میں اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ طویل المیعاد کووڈ کو بڑھانے والے عناصر تک پہنچا جاسکے، دیگر کئی لیبارٹریز کی جانب سے لانگ کووڈ سے متاثر مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کرکے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سائنس دانوں نے اس تحقیق کو ہاروی کا نام دیا تھا اور اس کا آغاز 2016 میں انفلوائنزا اور ملتے جلتے امراض کے اثرات جانچنے کے لیے ہوا تھا اور اب کورونا پر مشاہدہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
تحقیق میں کووڈ کو شکست دینے والے 300 افراد کو شامل کرکے طویل المعیاد بنیادوں پر مدافعتی ردعمل اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا جس کے بعد مذکورہ بالا نتائج سامنے آئے جس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا۔
جنوری میں امریکا میں ہی ہونے والی تحقیق میں انکشاف ہوا تھا کہ کوروناوائرس کے شکار ہر تین میں سے ایک مریض میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن اس میں وائرس کی دوسروں تک منتقلی کے تمام اثرات موجود ہوتے ہیں۔ اس ریسرچ میں ماہرین نے 18 لاکھ سے زیادہ افراد پر ہونے والی 61 طبی تحقیقی رپورٹس کا مشاہدہ کیا۔
جبکہ رواں ماہ طبی ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ کوروناوائرس کے محض 13 سے 18 فیصد مریضوں میں علامات ظاہر ہوتی ہیں جبکہ باقیوں میں وبا کی کوئی نشانیاں نمودار نہیں ہوتیں۔
یہ بھی پڑھیں: بل گیٹس نے ڈیجیٹل کرنسی سے جان چھڑانے کا مشورہ دے دیا