مصطفیٰ قتل کیس میں ایک اور پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں ملزم ارمغان کے حوالہ ہنڈی میں ملوث ہونے کے انکشاف کے بعد حکومت کی جانب سے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل میں اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق ملزم ارمغان نہ صرف حوالہ ہنڈی بلکہ ڈیجیٹل کرنسی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزم جعلسازی کے ذریعے ہر ماہ 3 سے 4 لاکھ امریکی ڈالر کماتا تھا اور اس رقم کو ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل کرتا تھا۔ اس کے زیر استعمال گاڑیاں بھی ڈیجیٹل کرنسی سے حاصل کردہ رقم سے خریدی گئی تھیں۔
مزید انکشاف ہوا کہ ارمغان نے اپنے دو ملازمین کے نام پر بینک اکاؤنٹس کھول رکھے تھے۔ اس کے غیر قانونی کال سینٹر کے ذریعے امریکی شہریوں کو دھوکہ دیا جاتا تھا۔ وہاں سے امریکی شہریوں سے اہم معلومات حاصل کرکے انہیں مختلف طریقوں سے لوٹا جاتا تھا۔
ایف آئی آر میں یہ بھی بتایا گیا کہ جعلسازی سے حاصل ہونے والی رقم بالآخر ارمغان کے پاس پہنچتی تھی۔ اس کا کال سینٹر 2018 میں قائم کیا گیا تھا جہاں سے وہ ایک منظم دھوکہ دہی کا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ اس نیٹ ورک کے ہر فرد کو روزانہ کم از کم پانچ افراد کو دھوکہ دینے کا ہدف دیا جاتا تھا۔
تحقیقات میں مزید معلوم ہوا کہ ارمغان کے پاس کروڑوں روپے مالیت کی تین گاڑیاں موجود ہیں جبکہ وہ پہلے ہی پانچ گاڑیاں فروخت کر چکا ہے۔
اس کے علاوہ اس نے اپنے والد کے ساتھ مل کر امریکا میں کمپنیاں بھی بنائی تھیں تاکہ حوالہ ہنڈی کے ذریعے غیر قانونی رقوم کی ترسیل کی جا سکے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو اغوا کیا گیا تھا اور ایک ماہ بعد 8 فروری کو پولیس نے کراچی کے ڈی ایچ اے خیابانِ مومن میں ایک بنگلے پر چھاپہ مارا تاکہ اسے بازیاب کرایا جا سکے۔ اس دوران پولیس ٹیم پر فائرنگ کی گئی جس سے ڈی ایس پی سمیت تین اہلکار زخمی ہو گئے۔
پولیس نے کارروائی کے دوران ارمغان کو گرفتار کر لیا جس نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ اس نے شیراز کے ساتھ مل کر مصطفیٰ کو اس کی اپنی گاڑی کے ڈگی میں ڈال کر حب لے جا کر جلا دیا تھا۔