درخت جب اندر سے کھوکھلا ہو کر سوکھ جائے تو اس کو گرانے میں نہ دیر لگتی ہے اور نہ دشواری پیش آتی ہے۔ درخت کاٹنے والا بہت آسانی سے اور کم وقت میں اس کو کاٹ دیتا ہے؛ بلکہ جڑیں تک اکھیڑ دیتا ہے۔
یہی حال قوموں اور گروہوں کا ہے، جو قوم خود اپنے نظریہ پر عمل نہیں کرتی، جو گروہ خود اپنے اصول پر عمل پیرا نہیں ہوتا، جس کے قول و فعل میں کھلا ہوا تضاد ہوتا ہے، جو الفاظ کے دریا تو بہا سکتا ہے؛ لیکن عملی دنیا میں اس کی بساط ایک قطرہ سے زیادہ نہیں ہوتی، وہ قوم اپنی بقاء کی لڑائی نہیں لڑ سکتی اور نہ اپنے چابک دست دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے، قرآن مجید نے یہودیوں کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے کہ ان کے قول و فعل میں یکسانیت نہیں ہے۔
اس وقت مسلمان اسی صورت حال سے دوچار ہیں، وہ دشمنوں کی دشمنی کا رونا روتے ہیں؛ لیکن حقیقت میں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا رونا رویا جائے، جن لوگوں کو آپ کی فکر، آپ کے عقیدہ، آپ کے طرزِ زندگی، آپ کی تہذیب و ثقافت، آپ کے تاریخی ورثہ؛ یہاں تک کہ آپ کے وجود اور آپ کے نام سے بھی نفرت ہے، ان سے اس بات کے سوا اور کس بات کی توقع رکھی جاسکتی ہے؛ ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ آپ کے دین کا تحفظ کریں گے اور آپ کی شریعت کو محفوظ رکھیں گے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص آگ سے پیاس بجھانے کی اور برف سے ایندھن کے کام آنے کی توقع رکھے؛ اس لئے ہندوستان کے موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ جہاں ہم عوامی رائے عامہ کے ذریعہ پُرامن احتجاج کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان پوری جرأت اور اعترافِ حقیقت کے ساتھ آپ اپنا محاسبہ کریں اور اپنے طرزِ عمل میں ایک بنیادی تبدیلی لائیں۔
اس وقت حکومت سے ہم جن مسائل میں نبرد آزما ہیں، اس کے بارے میں ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہمارا یہ رویہ کس حد تک دین کے مطابق ہے؟
ایک پیچیدہ اور نازک مسئلہ بابری مسجد کا ہے، اس میں شبہ نہیں کہ یہ مسجد تھی، مسجد ہے اور یہ شرعاً ہمیشہ مسجد ہی رہے گی، نیز بجا طور پر حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس مقدمہ کا خود ساختہ عقیدہ اور آستھا کے نقطۂ نظر سے نہیں؛ بلکہ ملکیت کے لحاظ سے اس کا جائزہ لیا جائے، ہمارا یہ دعویٰ سو فیصد درست ہے؛ لیکن غور کیجئے کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اوقاف کی جتنی جائیداد پر حکومت اور ہمارے غیر مسلم بھائی قابض ہیں، اسی قدر یا اس سے بھی زیادہ اوقاف کی جائیداد کے بڑے حصہ کو ان کے متولیوں نے بیچ دیا ہے، خود مسلمان وقف کی جائیداد پر قابض ہیں، جس عمارت کا کرایہ پانچ، دس ہزار روپئے ہونا چاہئے، خود مسلمان اس کا کرایہ پچاس اور سو روپئے ادا کرتے ہیں، یہاں تک کہ مسجدوں کے املاک پر بھی مسلمانوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم خود تو اوقاف میں بے جا تصرف کریں اور اپنی ذاتی املاک کی طرح اس میں تصرف کریں اور حکومت سے اس بات کی توقع رکھیں کہ وہ ہمارے اوقاف کی اور ہماری مسجدوں اور قبرستانوں کی حفاظت کرے گی۔
اسلام نے نکاح کو بہت آسان رکھا ہے، مسلمان عید، بقرعید میں جتنا خرچ کرتے ہیں، نکاح میں اتنا خرچ کرنا بھی ضروری نہیں، صرف ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے،جس میں نہ کوئی کرایہ خرچ ہوتا ہے اور نہ سجاوٹ کی گنجائش ہوتی ہے، نکاح کے ساتھ صرف ایک دعوت، ’’دعوتِ ولیمہ‘‘ رکھی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے قیمتی ولیمہ فرمایا وہ اس طور پر کہ ایک بکرا ذبح کیا؛ البتہ نکاح میں ایک لازمی ذمہ داری مہر کی ہے اور اس کو عقد کے وقت ہی ادا کردینا مسنون ہے۔
لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ برادرانِ وطن کا اثر قبول کرتے ہوئے نکاح کو نہایت ہی مشکل عمل بنا دیا گیا ہے،جس میں بعض اوقات لڑکی والے اپنا گھر تک بیچ دیتے ہیں، لڑکی والوں پر جہیز کا بارگراں تو ہے ہی، ایک بڑی نقد رقم کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، فنکشن ہال اور کھانے کے مینو تک کی تعیین ہوتی ہے اور یہ سارا بوجھ لڑکی والوں کے سر ڈالا جاتا ہے، دوسری طرف مہر ایک رسمی چیز بن کر رہ گئی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ اگرطلاق کی نوبت آئی تب مہر ادا کیا جائے گا، اس طرح اسلام کا تصور نکاح مسخ ہو کر رہ گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں امت کی لاکھوں بیٹیاں سسک سسک کر تجرد کی زندگی گزار رہی ہیں، اس غیراسلامی اور غیراخلاقی عمل پر ہمیں حکومت یا قانون نے مجبور نہیں کیا ہے؛ بلکہ یہ ہمارا اپنا بگاڑ ہے۔
شریعت کے خاندانی زندگی سے متعلق قوانین میں مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی ہے، یہ گنجائش اس لئے؛ کہ معاشرہ میں اخلاقی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی باقی رہے، بہت سی دفعہ یہ اجازت ایک سماجی ضرورت بھی بن جاتی ہے؛ لیکن قرآن نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ شوہر دونوں بیویوں کے درمیان عدل سے کام لے، اگر وہ عدل قائم نہ کر سکے تو اس کے لئے دوسرا نکاح کرنے کی گنجائش نہیں ’’وَ اِنْ لم تعدلوا فواحدۃ‘‘ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دوسری شادی کے جو واقعات پیش آتے ہیں، ان میں نوے فیصد واقعات میں دوسرا نکاح کسی ضرورت اور سنجیدہ جذبے کے ساتھ نہیں کیا جاتا؛ بلکہ پہلی بیوی کو تکلیف پہنچانے کے لئے انتقامی جذبہ سے کیا جاتا ہے اور انصاف کی شرط کو اس طرح بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے کہ ایک بیوی کے ساتھ تو محبوبہ اور معشوقہ کا معاملہ کیا جاتا ہے اور دوسری کو اس طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ نہ اسے بیوی کے حقوق ملتے ہیں اور نہ وہ شوہر کی زندگی سے آزاد ہوتی ہے، اس کو لٹکا کر رکھا جاتا ہے ، اس طرزِ عمل سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے، لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ ایک درست حکم کا غلط استعمال ہے؛ اس لئے وہ خود اسلام کو اس خدا ناترس شخص کی غلطی کا مجرم سمجھنے لگتے ہیں، حالاں کہ شریعت نے نہ صرف یہ کہ عدل کی شرط کے ساتھ دوسرے نکاح کی اجازت دی ہے؛ بلکہ اس بات کو بہتر قرار دیا گیا ہے کہ اگر ضرورت نہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفاء کیا جائے، ایک بیوی کی موجودگی میں بلاضرورت دوسرا نکاح کرنے سے گریز کیا جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت عدالتیں ایسے فیصلے کر رہی ہیں جو واضح طور پر شریعت سے متصادم ہیں، لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اس کی نوبت اسی وقت آتی ہے جب خود مسلمان اپنے مقدمات سرکاری عدالتوں میں لے کر جاتے ہیں، اپنے علماء اور قاضی و مفتی سے رجوع کرنے کے بجائے ان لوگوں سے اپنا معاملہ طے کرانے کی کوشش کرتے ہیں جو نہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں، نہ رسول پر، قرآن کے بیان کے مطابق یہ ایک منافقانہ طرز عمل ہے کہ زبان سے تو ہم اللہ اور اس کے رسول کی بات مایں اور عملی طور پر ہم اسے نظر انداز کردیں۔
اگر ہمیں ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے دینی تشخص کو بچانا ہے تو سر کٹانے کا جذبہ کافی نہیں، پہلے ہمیں اپنے اندر سر جھکانے کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، شریعت کے احکام خواہ ہماری چاہت اور مفادات کے خلاف ہوں؛ لیکن ہم اس کے سامنے جھک جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو اپنی خواہشوں اور چاہتوں پر غالب رکھیں؛ کیوں کہ جس قول کے پیچھے عمل کی طاقت نہ ہو، وہ دوسروں کو قائل نہیں کرسکتا، جو شخص اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو اور اس کا جسم زندگی کی حرارت سے محروم ہو، اس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ باہر کے دشمنوں کا مقابلہ کرسکے۔