کوئٹہ سے آٹھ ماہ قبل اغواء ہونے والے 10 سالہ بچے مصور خان کاکر کی لاش برآمد ہو گئی ہے، پولیس نے جمعہ کو اس افسوسناک خبر کی تصدیق کی۔
ڈی آئی جی بلوچستان اعتزاز احمد گورایہ کے مطابق بچے کی لاش دشت کے علاقے سے ملی جس کی شناخت ڈی این اے رپورٹ کے ذریعے کی گئی۔ لاش مصور کے غمزدہ والدین کے حوالے کر دی گئی ہے۔
ڈی آئی جی گورایہ نے بتایا کہ اس ہولناک واردات میں ایک کالعدم شدت پسند تنظیم ملوث تھی، جس نے بچے کے اہلِ خانہ سے بارہ ملین ڈالر تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کے مطابق علاقے میں کالعدم تنظیموں کے مابین داخلی اختلافات اور جھڑپوں کی اطلاعات بھی موجود تھیں اور ابھی یہ واضح نہیں کہ مصور کو ایسی ہی کسی جھڑپ کے دوران قتل کیا گیا یا منصوبہ بندی کے تحت۔
ڈی آئی جی نے مزید کہا کہ کیس ابھی بند نہیں کیا گیا اور اس بہیمانہ جرم میں ملوث عناصر کی تلاش جاری ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور سیکورٹی اداروں کی بھرپور کوششوں کے باوجود بچے کو زندہ بازیاب کرانے میں ناکامی پر افسوس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مصور کے والدین نے ہر مرحلے پر حکام کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔
گزشتہ سال اس واقعے پر کوئٹہ بھر میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی تھی جس میں سیاسی جماعتوں، ٹرانسپورٹرز اور تاجروں نے حصہ لیا تھا۔ اس ہڑتال کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ مغوی بچے کی بحفاظت بازیابی ممکن ہو سکے۔
احتجاج کرنے والوں نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ بچے کی بازیابی کے لیے اقدامات تیز کرے اور خبردار کیا تھا کہ پیش رفت نہ ہونے پر احتجاج مزید شدت اختیار کرے گا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے بھی اس کیس کا ان کیمرہ جائزہ لیا تھا، جس میں آئی جی پولیس نے بریفنگ دی تھی۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ کیس کو میڈیا میں زیادہ نمایاں کرنے سے بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا، اس لیے میڈیا کوریج محدود رکھی گئی۔