لاہور:صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے کہا ہے کہ ہمیں ناموس رسالت ؐکا پیغام دنیا تک پہنچانے کیلئے اسوہ حسنہ پر پابندی کر کے دکھانا ہو گا،ریاست مدینہ کے اندر اخلاق اور انسانی لیڈر شپ بنیاد ہے،اگر ہم نبیؐ سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ آپؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں۔
قوموں کی ترقی اور خوشحالی کے اندر ڈسپلن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے،اللہ تعالی بھی اس قوم کی مدد کرتا ہے جو محنت اور کوشش کرتی ہے،اس کی مثال مسلمانوں کا روشن ماضی ہے، جب انہوں نے ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیا، محنت کی، علم حاصل کیا اور دنیا پر چھا گئے جبکہ آج ہم بحیثیت مسلمان پوری دنیا میں مغلوب ہو کر رہ گئے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی تعلیمات کو بھلا دیا اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہم نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو پس پست ڈال دیا ہے،ہم علم و ہنر میں بہت پیچھے رہ گئے اور آگے بڑھنے کی کوشش اور جستجو کو چھوڑ دیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز قومی امن کمیٹی پاکستان برائے بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام منعقدہ رحمت اللہ عالمین و امن عالم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔صدرمملکت نے کہا کہ معاشرہ انصاف سے بنتا ہے، انصاف ہو گا تو خوشحالی ہو گی، معاشرے میں معاف کرنے کی عادت ڈالئے، معاف کرنے سے سوسائٹی میں بگاڑ کا خاتمہ ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ ریاست مدینہ بنانے کیلئے اچھی سوچ کا ہونا ضروری ہے، اچھا قدم اٹھائیں، انصاف کریں، ایک دوسرے سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں، یہ سب ایک فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر انسان کو اپنے طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
عارف علوی نے کہا کہ محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے، ان کی زندگی پر عمل درآمد کر کے ہی ہم ریاست مدینہ کو عملی جامعہ پہنا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج جن کے پاس طاقت ہے وہ دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔
ان تک میں اپنی بات ایسے اسلوب میں پہنچاں کہ ان کو سمجھ میں آئے لیکن اس کے مقابلے میں میں اگر اپنے ملک کے اندر احتجاج کریں، چیزوں کو نقصان پہنچایں، توڑ پھوڑ کریں تو ایسی حرکتوں سے ان کا بال بھی بھیگا نہیں ہو گا اور نہ ہی ان پر کوئی اثر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ نشاط ثانیہ تب آئے گی جب ہم ا پنی معیشت بہتر کر کے اپنے پاں پر کھڑے ہونگے، اگر ہم اپنی معیشت کو بہتر نہیں کر سکتے تو پھر ان کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے۔ صدر مملکت نے کہا کہ نبیؐ کی زندگی کے ذریعے اسلام کاپیغام ہم تک پہنچا ہے،اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اصل روح کے مطابق اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کر کے ہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔