پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں مشال خان ایک طالب علم تھا جسے توہینِ رسالت و مذہب کے نام پر بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔
یہ اندوہناک ماورائے عدالت قتل خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں ہوا جہاں عبدالولی خان یونیورسٹی کے مشتعل طلباء توہینِ رسالت کے نام پر مشال خان کو قتل کرنے نکل کھڑے ہوئے اور مشتعل ہجوم نے اس کی جان لے لی۔
مشال خان کو کیسے قتل کیا گیا؟
آج سے ٹھیک 3 سال قبل یعنی 13 اپریل 2017ء کے روز 25 سالہ مشال خان کی جان لے لی گئی۔ جس وقت مشال خان پر مشتعل طلباء کے ہجوم نے حملہ کیا، وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں موجود تھا۔
نوجوان طالب علم مشال خان پر عبدالولی خان یونیورسٹی کے طلباء نے ہی حملہ کیا جو اس کے ساتھ زیرِ تعلیم تھے جبکہ اس جرم میں یونیورسٹی کا عملہ بھی شریک تھا۔ ہاسٹل کا مرکزی دروازہ توڑ ڈالا گیا تاکہ مشال خان پر حملہ کیا جاسکے۔
یونیورسٹی کا عملہ اور مشتعل طلباءمشال خان کے کمرے میں گھس گئے اور اس پر اندھا دھند گولیاں برسا دیں جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا لیکن گولیاں برسانے کے بعد بھی حملہ آوروں کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوسکا۔
مشال خان کے کمرے اور ہاسٹل میں خوب توڑ پھوڑ کی گئی اور جو چیز حملہ آوروں کے ہاتھ لگتی گئی، اس کے ذریعے مشال خان پر وار کیے گئے اور اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
جب مشال خان شدید زخمی تھا، حملہ آور اسے گھسیٹ کر راہداری میں لے آئے اور دوسری منزل سے زخمی طالب علم کو نیچے پھینک دیا گیا جبکہ اس پر لکڑی کے ٹکڑوں، اینٹوں اور گملوں سے بھی تشدد کیا گیا۔
نیچے پہنچنے کے بعد مشال خان کے جسم کو مزید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جو مشتعل طلباء نیچے جمع تھے انہوں نے بھی مشال خان کے ساتھ مارپیٹ میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
قتل کے ذمہ دار افراد
قتل کیس میں عمران علی نامی ایک شخص کو سزائے موت سنائی گئی جو مشال خان کا کلاس فیلو بتایا جاتا ہے۔ عمران علی مالاکنڈ ایجنسی کا رہنے والا تھا جو شعبۂ ابلاغِ عامہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔
پولیس کے مطابق مشتعل طلباء میں عمران علی بھی شامل تھا جس نے تشدد اور مارپیٹ کے دوران مشال خان پر مسلح حملہ کیا اور اس پر گولی چلا دی جس کے بعد مشال خان کی زندگی خطرے میں پڑ گئی۔
دوسری جانب پولیس کے بعض اہلکاروں نے یہ بھی کہا کہ مشال خان کی موت کا سبب صرف گولی نہیں بنی بلکہ ان پر بد ترین تشدد کیا گیا جس سے مشعال خان جاں بحق ہوگیا۔
مقدمے کے دیگر نامزد ملزمان میں عارف خان، بلال بخش، وجاہت اللہ اور دیگر 61 ملزمان شامل ہیں جبکہ مشتعل طلباء کے ہجوم میں طلباء کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کا عملہ بھی شامل تھا۔
مقتول مشال خان کی تدفین
مشال خان کا آبائی گاؤں زیدہ ہے جو صوابی شہر میں واقع ہے جہاں ان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ مشال خان کو 14 اپریل 2017ء کو سپردِ خاک کیا گیا۔
مقتول مشال خان کے والد اقبال لالا کے بیان کے مطابق مشال خان احترامِ انسانیت، مساوات اور بھائی چارے کے اصولوں کا قائل امن پسند نوجوان تھا جسے بے گناہ ہونے کے باوجود قتل کردیا گیا۔
قانونی کارروائی
ہری پور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے فروری 2018ء میں مشال خان قتل کیس کا فیصلہ سنایا جس کے مطابق مرکزی ملزم عمران علی کو سزائے موت سنائی گئی۔
بلال بخش اور چار دیگر مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور وجاہت اللہ سمیت 24 دیگر مجرمان کو چار چار سال قید کی سزا سنائی گئی جس پر مردان میں شدید مظاہرے کیے گئے۔
دینی محاذ مردان کے زیر انتظام احتجاجی مظاہرے کے دوران رہا ہونے والے افراد کو خوش آمدید کہا گیا جبکہ اس دوران تحفظِ ختمِ نبوت، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی کارکنان موجود رہے۔
توہینِ اسلام کے نام پر قتل جائز یا ناجائز؟
ہماری ناقص رائے میں توہینِ اسلام کے نام پر ایک مسلمان کو اس لائق ضرور ہونا چاہئے کہ وہ نہ صرف جان لے سکے بلکہ اپنی جان پیش بھی کرسکے، تاہم یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ مشال خان کا قتل جائز تھا یا ناجائز؟
اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو توہین مذہب کے نام پر قتل کا حکم تو ضرور دیتا ہے لیکن اس کے لوازمات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر توہین رسالت کا الزام غلط ہے تو مخالف کو بھی سزائے موت دی جائے۔
دوسری جانب سزا دینے یا نہ دینے کا اختیار اولی الامر کو ہوتا ہے جبکہ مشال خان قتل کیس میں یہ اختیار ریاستِ پاکستان اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو حاصل تھا جس نے مشال خان کے قتل کے ذمہ داروں کو سزا سنائی۔
شریعت کا سب سے بڑا اصول انسانی جان کی اہمیت ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو کہتا ہے کہ اگر کعبۃ اللہ کی دیواریں توڑنا کسی مسلم یا غیر مسلم کی جان بچانے کے لیے ضروری ہوجائے تو وہ دیواریں توڑ ڈالو اور انسان کی جان بچاؤ۔
اللہ تعالیٰ ناحق قتل کو اس قدر ناپسند کرتا ہے کہ اگر ساری دنیا کسی ناحق قتل پر متفق ہوجائے اور کسی ایک انسان کو بھی بغیر کسی درست وجہ کے قتل کر ڈالے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قتل کے ذمہ داروں میں سے کسی ایک کو بھی سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑے گا۔
نظامِ عدل اور ہماری ذمہ داریاں
پاکستان کا نظامِ عدل و انصاف اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر اپنا کام درست طریقے سے کر رہے ہوتے تو مشال خان جیسے کسی بھی نوجوان کو ناحق قتل کرنا تو دور، اس پر انگلی بھی نہیں اٹھائی جاسکتی تھی۔
اس تمام تر صورتحال میں ہر پاکستانی شہری کی ذ مہ داری بنتی ہے کہ نظامِ جمہوریت میں ان لوگوں کو اپنا حکمران منتخب کریں جو آگے چل کر نظامِ عدل کو مضبوط کرسکیں تاکہ ایسے ماورائے عدالت قتل کا سوال ہی پیدا نہ ہوسکے۔