اللہ نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور انہیں سیدھے راستے پر چلانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو راہ حق کی تبلیغ کرسکیں، ایمان والوں نے انبیائے کرام کی آواز پر لبیک کہا مگر کچھ لوگوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا اور اپنے لئے جہنم کا انتخاب کیا، انبیائے کرام نے اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے بہت سے معجزات بھی دکھائے تاکہ لوگوں کو یقین آجائے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندے ہیں، مگر پھر بھی لوگوں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی بات ماننے سے انکار کیا۔ اسی تناظر میں میں نے سوچا کے آج میں سیاسی و معاشی حالات سے ہٹ کر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کروں۔
ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہیں سفر پر جارہے تھے کہ ایک شخص آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ”یا نبی اللہ، میں آپؑ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں تاکہ سفر میں آپؑ کی خدمت کرسکوں اور علمِ دین بھی سیکھ سکوں۔“ آپؑ نے اس کو اجازت دیدی۔ وہ شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سفر کرنے لگا۔ چلتے چلتے راستے میں ایک نہر آئی تو آپؑ نے فرمایا”آؤ کھانا کھالیں۔“ دونوں درخت کے سائے میں بیٹھ گئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس اس وقت صرف تین روٹیا تھیں، دونوں نے ایک ایک روٹی کھالی، جبکہ تیسری روٹی باقی بچ گئی۔
روٹی کھانے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پانی پینے کے لئے نہر کے کنارے کے پاس چلے گئے جب پانی پینے کے بعد آپؑ واپس اس شخص کے پاس تشریف لائے تو دیکھا تیسری روٹی وہاں نہیں تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس شخص سے پوچھا کہ ”تیسری روٹی کہاں ہے؟“ وہ شخص بولا ”مجھے کچھ نہیں پتہ“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی تھے سب جانتے تھے لیکن اس شخص کا جواب سن کر خاموش ہوگئے۔ دراصل جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پانی پینے کے لئے نہر کے کنارے کے پاس گئے تھے تو اس وقت اس شخص نے تیسری روٹی چھپالی تھی تاکہ آگے سفر کے دوران جنگل، بیابان اور صحراؤں سے گزرتے ہوئے جب کھانے کو کچھ نہیں ملے گاتو وہ چپکے سے اپنا پیٹ اس روٹی سے بھر لے گا۔
وہاں کچھ دیر قیام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا”آؤ، آگے چلیں۔“ کافی دور سفر طے کرنے کے بعد راستے میں ایک جنگل آگیا، اس شخص کو بھوک لگنے لگی، اسی لمحہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنگل میں ایک ہرنی اپنے دو بچوں کے ساتھ نظر آئی، آپؑ نے ہرنی کے ایک بچے کو اپنے پاس بلایا تو وہ دوڑتا ہوا آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوگیا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس اسے ذبح کیا اور اس گوشت بھون کر اس شخص سے فرمایا۔ ”آؤ ہم دونوں کھائیں“
گوشت کھانے کے بعد آپؑ نے ہرنی کے بچے کی ہڈیوں کو جمع کیا اور فرمایا ”اللہ کے حکم سے زندہ ہوکر کھڑا ہوجا۔“ آپؑ کا یہ کہنا تھا ہرنی کا بچہ پھر سے زندہ ہوگیا اور چوکڑیاں بھرتے ہوئے اپنی ماں کے پاس چلا گیا، وہ شخص اللہ کے نبی کا معجزہ دیکھ کر حیران ہوگیا۔ ایک مرتبہ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس شخص سے پوچھا ”تجھے اس اللہ کی قسم، جس نے مجھے یہ معجزہ دکھانے کی قدرت عطا کی، اب سچ بتا“ وہ تیسری روٹی کہاں گئی؟ وہ شخص اپنے جھوٹ پر قائم رہا اور بولا ”مجھے کچھ معلوم نہیں“۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ دیکھ کر بھی وہ شخص یہ نہ سمجھ سکا کہ اللہ کے نبی تو سب جانتے ہیں، اس شخص کے دوبارہ جھوٹ بولنے پر آپؑ نے فرمایا ”آؤ آگے چلیں“۔ دونوں نے پھر سے سفر شروع کردیا، چلتے چلتے راستے میں ایک دریا آگیا، جسے پار کرکے آگے جانا تھا لیکن وہاں کوئی کشتی موجود نہ تھی، وہ شخص کشتی ڈھونڈنے کی خاطر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ آپؑ نے اس شخص کا ہاتھ پکڑا اور دریا کے پانی کے اوپر اس طرح چلنے لگے جیسے زمین پر چل رہے ہوں، دریا کے پانی پر چلتے ہوئے آپؑ اس شخص کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر لے آئے۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرہ معجزہ تھا جو اس شخص نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ کر آپؑ نے پھر اس شخص سے پوچھا”تجھے اللہ کی قسم، جس نے مجھے یہ معجزہ دکھانے کی قدرت عطا کی، سچ سچ بتا، وہ تیسری روٹی کہاں گئی؟ وہ شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرا معجزہ دیکھ کر بھی سچ بولنے کے بجائے پھر سے جھوٹ کہنے لگا کہ ”مجھے کچھ نہیں پتہ“ یہ سن کر آپؑ نے فرمایا آؤ آگے چلیں۔ چلتے چلتے راستے میں ریگستان آگیا، صحرا کی ریت ایسے لگ رہی تھی جیسے سونا ہو، اس شخص نے ریت کو چھو کر دیکھا کہیں سچ مچ سونا تو نہیں بکھرا ہوا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صحرا کی تھوڑی سی ریت جمع کرکے ایک ڈھیری بنائی اور پھر اس ڈھیری سے مخاطب ہوکر فرمایا”اے ریت کی ڈھیری، اللہ کے حکم سے سونا بن جا۔“ آپؑ کے یہ فرماتے ہی یہ ریت کی ڈھیری سونے میں تبدیل ہوگئی، آپؑ نے سونے کی ڈھیری کے تین حصے کئے اور پھر اس شخص سے فرمایا” سونے کی ڈھیری کا ایک حصہ میرا ہے، اور دوسرا حصہ تیرا ہے جبکہ تیسرا حصہ اس شخص کو ملے گا جس کے پاس وہ تیسری روٹی ہوگی“ اپنے سامنے سونے کی ڈھیری دیکھ کر اس شخص کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، وہ اتنا سارا سونا کھونا نہیں چاہتا تھا، جھٹ سے سچ بول اُٹھا ”اللہ کے نبی، وہ تیسری روٹی میں نے چھپالی تھی۔“
آخر سونے کی لاچ میں سچ بول کر اس شخص نے اللہ کے نبی کے سامنے اپنی بے ایمانی کا اقرار کر ہی لیا تھا، حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہلے سے ہی جانتے تھے کہ تیسری روٹی اس شخص نے چھپائی ہے۔ آپؑ یہ سن کر مسکرا دیئے اور فرمایا ”یہ سارا سونا تم ہی لے لو“ اس کے بعد آپؑ اس شخص کو وہیں چھوڑ کر کر اپنے سفر پر اکیلے ہی روانہ ہوگئے۔ اس شخص نے سونا تو پالیا لیکن اپنے لالچ، جھوٹ اور کمزور ایمان کی وجہ سے ایک نبی کی قربت اور تعلیمات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہوچکا تھا۔ اس کے بعد اس شخص کا انجام کیا ہوا اپنے آئندہ آنے والے کالم میں تحریر کروں گا۔