خدا را قوم کو قرض سے چھٹکارا دلانے کی فکر کریں

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

خواہ فرد ہو یا قوم قرض دونوں کے حق میں ایک بڑی آفت ہے، پھر یہ قرض سود کی لعنت میں ملفوف ہو تو فرد ہو یا پوری ایک قوم مکڑی کے جالے میں کسی ناتواں اور کمزور مکھی کی طرح جکڑ کر رہ جاتی ہے اور مکڑی کے جال میں پھنسی مکھی کی طرح بہ مشکل ہی بچ نکلنے کی راہ پاتی ہے۔

سب سے بہتر اور دانشمندانہ پالیسی یہی ہے کہ معیشت کو اس طرح متوازن انداز میں چلایا جائے کہ کسی سودی ساہوکار کی طرف قرض کیلئے دست سوال دراز کرنے کی مجبوری نہ گھیرے۔ اس مقصد کیلئے معیشت اور انتظامی مشینری کو شفاف، خود کار اور فعال رکھنا، ملکی نظام کو کرپشن اور خیانت کے رخنوں سے محفوظ کرنا، نظام میں شفافیت لانا، آمدن اور اخراجات میں توازن پیدا کرنا اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانا بے حد ضروری ہے، سیرت طیبہ سے بھی اس امر کی تاکیدی رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ ایک ارشاد گرامی میں اخراجات میں میانہ روی، اعتدال اور احتیاط کو آدھی معیشت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسراف، تبذیر اور فضول خرچی کی شدت سے نکیر اور حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

معیشت کے ان عام اور مسلمہ انسانی تجرباتی اصولوں کو اختیار کرنے سے معاشی مسائل سر نہیں اٹھاتے، جبکہ انہیں نظر انداز کرنے سے بڑی سے بڑی اور مضبوط سے مضبوط معیشت کی عمارت بھی بہت جلد کھوکھلی ہوکر دھڑام سے دیوالیہ پن کے گڑھے میں جاگرتی ہے۔

بد قسمتی سے معاشی بحرانوں اور بد انتظامی کی دلدل میں گھرے دھنسے تیسری دنیا کے دیگر ترقی پذیر ملکوں کی طرح ہمارے یہاں بھی وہ تمام منفی عوامل پوری شدت سے رو بہ عمل ہیں، جو معیشت کی عمارت کیلئے تباہ کن دیمک اور گھن ثابت ہیں، یہی وجہ ہے کہ بد ترین نا اہلی، غیر شفافیت، افسر شاہی کے مسرفانہ اخراجات، حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور بد انتظامی جیسے عوامل کی بدولت ملکی معیشت طویل عرصے سے بھاری سودی قرضوں کے مصنوعی تنفس پر برائے نام زندہ ہے۔
قرض ایک عارضی اور مجبوری کا بندوبست ہوتا ہے، بہ امر مجبوری ضرورت پوری کرنے کیلئے ایک خاص مدت تک قرض حاصل کیا جاتا ہے۔ مطلوبہ اور اچھی حکمت عملی یہی ہے کہ قرض متعین مدت کے اندر لوٹانے کے ساتھ ساتھ ایسا انتظام بھی کیا جائے کہ دوبارہ قرض گیری کی مجبوری نہ آن گھیرے، مگر نکمے، نا اہل اور کام چور لوگوں کو قرض کی مئے کی لت پڑ جاتی ہے اور وہ قرض سے ہی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

پاکستان پر چالیس ہزار ارب روپے سے زائد کا قرض ہے، قرض کا یہ ہمالہ راتوں رات کھڑا نہیں ہوا۔ قرضوں کا یہ دیوہیکل انبار اور نا قابل تحمل بوجھ ثابت کرتا ہے کہ ہم ایک نکمی، نکھٹو اور کام چور قوم ہیں اور ہم میں ذرا بھی احساس ذمے داری نہیں۔

ہم نے شروع سے ہی قرض لیکر اخراجات کے عارضی بندوبست اور دفع وقتی کو ہی مستقل عادت اور قومی پالیسی بنا رکھا ہے، مگر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ قرض اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہماری بے جان معیشت میں اب تک لیے گئے قرضوں کی ایک آدھ قسط چکانے کی بھی سکت نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے مزید ایک قسط کی بھیک ہماری جھولی میں ڈالنے کیلئے حکومت سے پوری قوم پر مہنگائی کے تازیانے برسوائے اور خوب ناک سے لکیریں کھنچوائیں۔

تازہ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے سی پیک منصوبوں کیلئے سرخ جھنڈی دکھا دیہے۔ یہ رپورٹ مظہر ہے کہ جس قدر سخت لے دے کے بعد آئی ایم ایف نے قرض کی نئی قسط دینے کا فیصلہ کیا ہے، اندرون خانہ کہیں زیادہ سخت شرائط لگا کر ہمارے ہاتھ پیر باندھ دیے گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ان سخت شرائط کا مقصد یہی ہے کہ دیے گئے قرض کی واپسی یقینی بنائی جائے، قرض دہندہ عالمی ادارے کا خیال ہے کہ سی پیک جیسے منصوبوں پر سرمایہ کاری سے اس کے پیسے پھنس سکتے ہیں اور عالمی ادارہ اس حوالے سے سمجھوتے پر آمادہ نہیں۔

اگر ہم نہیں سنبھلے اور اپنی معیشت میں جان پیدا کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو پھر کچھ مدت بعد ہمارے سر پر دیوالیہ پن کے وہ مہیب بادل منڈلائیں گے کہ جو ہمارے قومی وجود کو موجودہ مشکلات سے زیادہ پیچیدگیوں میں محصور کر دیں گے۔

آج اگر سی پیک سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں پر سرخ دائرہ لگا دیا گیا ہے تو کل کو ہمیں اپنی جوہری طاقت اور دفاعی ضروریات سے دستکش ہونے کی سند پر بھی امضا کرنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔

ملک کو اس حالت بد کے بھنور میں پھنسانے میں تمام مقتدرین، بلا امتیاز تمام اہل سیاست، افسر شاہی اور اداروں کا کم زیادہ پورا پورا حصہ ہے۔ باقی معاملات میں اختلافات اور ترجیحات میں تفاوت اپنی جگہ ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت اور قرضوں کے باب میں تمام اسٹیک ہولڈر، اہل سیاست اور مقتدرہ باہم سر جوڑیں اور اتفاق رائے سے ایسی راہ عمل وضع کریں، جس پر حکومتوں کی تبدیلی کا عامل اثر انداز نہ ہوسکے۔ حالات نہایت گمبھیر ہیں، کوئی بھی غیر ضروری مہم جوئی اور غیر سنجیدہ طرز عمل قوم کے مستقبل کو اندھیروں میں ڈبو سکتا ہے۔

Related Posts