ڈائنوسار سے بھی پرانی مچھلی جو پانی کے باہر سانس لے سکتی ہے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ریہ ماہی کا دماغ 40کروڑ سال سے ارتقاء کے سفر سے گزر رہا ہے۔ماہرین
ریہ ماہی کا دماغ 40کروڑ سال سے ارتقاء کے سفر سے گزر رہا ہے۔ماہرین

ریہ ماہی ڈائنو سار کے دور سے بھی پرانی مچھلی قرار دی جاتی ہے جو پانی کے اندر اور باہر دونوں طرح سانس لینے کیلئے خاص شہرت رکھتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ریہ ماہی جسے انگریزی میں لنگ فش کہا جاتا ہے، پانی کے اندر اور باہر دونوں طرح سے سانس لینے کے باعث مشہور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 40 کروڑ سال سے لنگ فش کا دماغ ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا ہے۔

محققین کے مطابق آسٹریلیا میں فلنڈرز یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ لنگ فش کا دماغ گزشتہ 40 کروڑ سال سے ارتقاء کے عمل سے گزر رہا ہے جبکہ یہ مچھلی ڈائنوسار کے دور سے بھی پرانی قرار دی جاتی ہے۔

(فوٹو: سائیٹیک ڈیلی)ماہرین کا کہنا ہے کہ لنگ فش جھینگے، کیکڑے اور چھوٹی موٹی مچھلیاں کھاتی ہے اور افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں کے پانیوں میں زندگی گزارتی ہے جہاں بارش نہ ہونا اور خشک سالی ہمیشہ سے اہم مسائل رہے ہیں۔

سائنسدانوں کی ریہ ماہی پر تمام تر تحقیق کے نتائج بین الاقوامی جریدے ای لائف میں شائع ہوئے ہیں جو لنگ فش کے دماغ کے ارتقاء کے سفر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ دماغ کے مختلف حصوں نے مختلف ادوار میں کس طرح نشوونما پائی۔

تحقیقی مطالعے میں شامل ڈاکٹر کلیمنٹ کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ لنگ فش کے دماغ نے مسلسل ترقی کی اور اپنی 40 کروڑ سالہ تاریخ میں ان مچھلیوں نے دیگر صلاحیتوں کے مقابلے میں اپنی سونگھنے کی صلاحیت پر زیادہ انحصار کیا ہے۔

ڈاکٹر کلیمنٹ نے مزید کہا کہ دیگر مچھلیوں کے مقابلے میں ریہ ماہی نے ایک الگ روئیے کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ دوسری مچھلیاں عموماً اپنی آنکھوں کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔

Related Posts