بارش کے باعث کراچی میں اربوں کا نقصان، اندرونِ سندھ کا برا حال اور وبائی امراض

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بارش کے باعث کراچی میں اربوں کا نقصان، اندرونِ سندھ کا برا حال اور وبائی امراض
بارش کے باعث کراچی میں اربوں کا نقصان، اندرونِ سندھ کا برا حال اور وبائی امراض

مون سون کے حالیہ سیزن کے دوران بارش نے پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر نقصان کیا، سب سے برا حال سندھ کا ہوا۔ کراچی میں معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا، اندرونِ سندھ سیلابی صورتحال کے باعث عوام الناس کو پریشانی کا سامنا ہے جبکہ جگہ جگہ مسلسل کھڑے پانی سے وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے۔ 

آئیے سندھ بھر میں حالیہ بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ عوام کے مسائل کیا ہیں؟ لوگ کن کن مصیبتوں سے گزر رہے ہیں اور بارش کے باعث سیلابی صورتحال کے دوران حکومت نے اب تک کیا اقدامات کیے؟

ریکارڈ توڑ بارش اور معاشی نقصان

شہرِ قائد میں پہلے پہل یہ خبر سننے کو ملی کہ بارشوں کا 89 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا جبکہ 4 روز قبل محکمۂ موسمیات نے تصدیق کی کہ ہمارے پاس 1932ء تک کا بارشوں کا ریکارڈ موجود ہے لیکن موجودہ بارشوں نے گزشتہ تمام ریکارڈز توڑ دئیے ہیں۔

قبل ازیں جولائی 1967ء میں 429 ملی میٹر بارش ہوئی تھی جبکہ رواں ماہ کے دوران 442 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ 67ء کے مون سون سیزن کے دوران 713 ملی میٹر بارش ہوئی تھی جبکہ موجودہ مون سون کے دوران 566 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

معیشت کو بھاری نقصان ہوا کیونکہ کاروباری مراکز مسلسل بارش کے باعث مندی اور بندش کا شکار رہے۔ اپنی جانیں بچانے میں مصروف شہری خریدوفروخت اور شاپنگ بھول گئے جس سے معیشت کو اربوں کا نقصان پہنچا۔ سبزی اور فروٹ منڈی میں پانی بھر گیا ، سبزیاں اور پھل خراب ہو گئے، منڈی میں تعفن پھیل گیا۔

کاروباری برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کاروبار میں مسلسل مندی اور بارش کے باعث تباہی و بربادی سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے مالی ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے، تاہم اِس حوالے سے کوئی مثبت ردِ عمل سامنے نہ آسکا۔ 

بارش سے کراچی  میں تباہی و بربادی 

موجودہ مون سون سیزن کے دوران کراچی سمیت سندھ بھر میں نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ سڑکیں تالاب اور گھر ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگے۔ گھروں میں بارش اور سیوریج کا گندا پانی داخل ہوگیا جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ درجنوں افراد بارش کے پانی میں ڈوب کر جان کی بازی ہار گئے۔

نکاسئ آب کا نظام ناقص ثابت ہوا۔ بارش کا پانی سیوریج کے راستے سے نکالنے کے باعث سیوریج سسٹم تباہ ہوگیا۔ کراچی کے علاقوں ناگن چورنگی اور شادمان ٹاؤن میں نالے طغیانی کا شکار ہو گئے۔ برسات کے ساتھ ساتھ نالے کا گندا پانی اور کچرا گلیوں اور سڑکوں پر جمع ہو کر حکومت کا منہ چڑانے لگا۔

پانی جمع ہونے کے باعث شہری گھروں میں محصور ہونے پر مجبور ہوئے۔ یہ صورتحال کراچی ساؤتھ، ڈیفنس اور دیگر اہم علاقوں میں پیش آئی۔ کچی آبادیوں میں مکانات گر گئے، عوام  کی زندگیاں تباہ ہو گئیں تاہم اِس تمام تر صورتحال کا ذکر غیر اہم سمجھے جانے کے باعث میڈیا پر دکھائی نہیں دیا۔

کئی کئی فٹ پانی جمع ہونے کے باعث لوگوں کے گھروں کا سامان ضائع ہوگیا۔ بہت سے لوگ گھروں کی چھتوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ زمین پر جمع ہونے والا پانی اتنا زیادہ تھا کہ بعض علاقوں میں چوتھی منزل سے چھلانگ لگا کر لوگ پانی میں غوطہ زن ہوتے دکھائی دئیے۔

سیوریج کی تباہ حالی اور واٹر بورڈ کا ردِ عمل 

دوسری جانب سیوریج کی تباہ حالی کے باعث گٹر ابل پڑے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سے جب اِس صورتحال پر ردِ عمل لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سیوریج لائنز صرف سیوریج کے پانی کی نکاسی کیلئے ہیں، بارش کا پانی نکالنے کیلئے جب انہیں استعمال کیا جائے تو یہی ہوگا جو ہورہا ہے۔

شہری انتظامیہ، سندھ حکومت، واٹر بورڈ کی مشینری، عملہ اور ڈی واٹرنگ پمپ عوام کے کسی کام نہ آسکے بلکہ پاک فوج اور رینجرز کو سکیورٹی کے کام چھوڑ کر کراچی کی صفائی اور بارش کا پانی نکالنے کے کام سرانجام دینے پڑے۔ جہاں جہاں پاک فوج نہ پہنچ سکی، وہاں عوام اپنی مدد آپ کے تحت پانی نکالنے میں مصروف رہے۔

ندی نالوں میں طغیانی اور لینڈ سلائڈنگ 

کورنگی کراسنگ روڈ کو ملیر ندی میں طغیانی کے باعث بند کرنا پڑا۔ بلوچ کالونی سے جانے والوں کو ٹریفک پولیس نے قیوم آباد بھیجنا شرع کردیا۔ شہریوں سے کہا گیا کہ اگر آپ پریشانی سے بچنا چاہتے ہیں تو متبادل راستوں سے آمدورفت جاری رکھیں۔

پانچ روز قبل محمود آباد ندی کا بند بھی ٹوٹ گیا جس سے پانی گھروں میں بھرنا شروع ہوگیا، علاقہ مکین خوف و دہشت کا شکار اور پریشان رہے۔ بڑے پیمانے پر لوگوں کا مالی نقصان ہوا۔ گلستانِ جوہر میں منور چورنگی کے قریب لینڈ سلائڈنگ اور پہاڑی تودہ گرنے کے باعث متعدد موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں دب گئیں۔

کے الیکٹرک کی من مانیاں

لوڈ شیڈنگ کے باعث شہریوں کا جینا اجیرن رہا۔ ہر بار بارش شروع ہونے پر کے الیکٹرک کے عملے نے مسلسل عوام پر لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلط کیا جس سے کاروبارِ زندگی تباہ ہوگیا۔

مختلف علاقوں میں 8 سے 10 گھنٹےاور زیادہ کی لوڈ شیڈنگ کی گئی۔ جہاں جہاں زیادہ بارش ہوئی، وہاں لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ کی گئی جس کے تدارک کیلئے کے الیکٹرک جدید آلات کی کمی کا شکار ہے۔

ہر بار جب کے الیکٹرک کی انتظامیہ سے سوال کیا گیا کہ لوڈ شیڈنگ کیوں کی جارہی ہے تو تکنیکی خرابی اور تاروں کے ٹوٹنے کی شکایت کی گئی۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مطابق کے الیکٹرک کو انفراسٹرکچر اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

کچرے کی صفائی ضروری

تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما حلیم عادل شیخ کے مطابق کراچی کو گینگ وار یا ٹارگٹ کلنگ کے باعث اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا کچرے اور تجاوزات سے ہوا۔ شہر بارشوں کی بجائے کچرا صاف نہ ہونے کے باعث ڈوب گیا ، یہ ذمہ داری پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے جو کہیں نظر نہیں آتی۔

پی ٹی آئی رہنما کے مطابق سندھ حکومت کے پاس ریسکیو کیلئے کوئی فعال ادارہ نہیں۔ پاک فوج، رینجرز اور این ڈی ایم اے کو عوام کی مدد کیلئے آنا پڑا۔ اگر کراچی کو تباہی سے بچانا ہے تو بارشوں کے پانی کی نکاسی کے ساتھ ساتھ کچرے کی صفائی بھی ضروری ہے۔ 

سندھ کے دیگر شہروں کی صورتحال

صوبائی دارالحکومت کراچی کے ساتھ ساتھ حیدر آباد،ٹنڈو محمد خان، سجاول، ٹھٹھہ اور میر پور خاص میں بھی موسلا دھار بارش ہوئی جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ متعدد علاقوں میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی نے لوڈ شیڈنگ کے ریکارڈ توڑ دئیے۔

صوبے کے مختلف شہروں میں پانی گھروں میں داخل ہوگیا اور عوام کو بجلی سے محرومی کا عذاب جھیلنا پڑا۔ میر پور خاص میں سڑکیں تالاب بن گئیں اور حیدر آباد دریا کا منظر پیش کرنے لگا۔ کئی کئی فٹ پانی کے باعث شہریوں کی آمدورفت محال رہی۔

مختلف شہروں میں مکانوں کی چھتیں گر گئیں، دیواریں ٹوٹ کر ایک طرف جھکنے لگیں، کچے مکانات تباہ ہو گئے اور لوگ کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے۔ نشیبی علاقوں کے زیرِ آب آنے سے  ہزاروں ایکڑ پر فصلیں تباہ ہو گئیں اور شہری بے گھر ہو گئے۔

وبائی امراض کا خدشہ 

مسلسل بارشوں اور کھڑے پانی کے باعث گندگی اور تعفن پھیل رہا ہے جس سے بڑے پیمانے پر وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔سندھ میں ناقص شیلٹر، پینے کے پانی کی عدم دستیابی اور حفظانِ صحت کے انتظامات کا نہ ہونا پہلے ہی بڑے مسائل ہیں۔

سن 2011ء میں بارشوں کے دوران عالمی ادارۂ صحت نے وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ کہا گیا کہ بارشوں کا پانی کھڑا رہنے سے مچھروں کی افزائش ہو رہی ہے جس سے ملیریا پھیل سکتا ہے۔ آج سندھ کے متعدد شہروں میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہے اور سیلاب جیسی صورتحال درپیش ہے۔  وبائی امراض کا خدشہ نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

تدارک کی ضرورت 

پاک فوج، رینجرز اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ساتھ ساتھ حکومتِ سندھ کو بھی عوام کو مسائل سے نکالنے کیلئے عملی اقدامات اور مشکلات کے تدارک کیلئے سامنے آنا ہوگا۔

آج ہی ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے ڈی ایچ اے کو بارش کے پانی سے تقریباً پاک اور ڈرائیونگ کے قابل قرار دے دیا ہے تاہم کراچی کے دیگر علاقوں کی صورتحال اب تک درست نہیں ہوسکی۔ سندھ حکومت کو رین ایمرجنسی کے تحت کراچی اور سندھ بھر میں ہنگامی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ 

Related Posts