آج سے ٹھیک108 سال قبل لدھیانہ میں جنم لینے والے سعادت حسن منٹو کو ان کی یادگار تحریروں، افسانوں اور خاکوں کے باعث آج بھی اسی طرح یاد کیا جاتا ہے جیسے وہ ہمارے درمیان موجود ہوں جبکہ ان کی ادبی و سماجی زندگی خود کسی بھرپور افسانے سے کم نہیں تھی۔
منٹو کا یومِ پیدائش آج پاکستان سمیت دنیا بھر کے ہر اس ملک میں منایا جارہا ہے جہاں اردو پڑھی اور سمجھی جاتی ہے کیونکہ اردو کتابوں کے شائقین کی ایک بہت بڑی تعداد سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی رسیا ہے جو ہر قاری پر اپنا گہرا نقش چھوڑ جاتے ہیں۔
آئیے ہم آپ کو سعادت حسن منٹو کی مختصر داستانِ حیات اور تخلیقی سفر سے روشناس کراتے ہیں تاکہ آپ کو علم ہوسکے کہ دنیائے ادب میں منٹو کو وہ مقام کیوں دیا جاتا ہے جو آج تک کسی دوسرے افسانہ نگار اور داستان گو کو نصیب نہ ہوسکا۔
منٹو کی ابتدائی زندگی
سعادت حسن منٹو 11 مئی سن 1912ء کے روز کشمیری النسل غلام حسن منٹو کے ہاں پیدا ہوئے جو بھارتی شہر امرتسر کے محلہ کوچۂ وکیلاں میں رہائش پذیر تھے۔ منٹو کا خاندان اہلِ خانہ کی تعداد کےاعتبار سے بڑا تھا، جہاں منٹو کو سوتیلے بہن بھائیوں کے ہمراہ رہنا پڑا۔
لدھیانیہ کی کسی تحصیل میں تعینات غلام حسن منٹو نامی کے نام سے پکارے جاتے تھے جبکہ منٹو ان کے گھر میں سہمے سہمے رہتے تھے۔ سوتیلے بہن بھائی اگر ان کے ساتھ کوئی زیادتی کرنے لگتے تو منٹو کی والدہ ان کا ساتھ دیتی تھیں۔
بچپن ہی سے لیے دئیے رہنے والے سعادت حسن منٹو نے کسی پر اپنی تخلیقی قوت کبھی آشکار نہ کی جبکہ منٹو کا ذہن رسمی تعلیم کے خلاف تھا جس کے پیشِ نظر تیسری جماعت تک ابتدائی تعلیم انہوں نے گھر پر حاصل کی۔
میٹرک کے امتحان میں سعادت حسن منٹو تعلیم پر توجہ نہ دینے کے باعث تین بار فیل ہوئے۔ منٹو کو کند ذہن نہیں کہا جاسکتا، تاہم اساتذہ کی توجہ اور گھریلو حالات کے باعث وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہ دے سکے تاہم 1931ء میں انہوں نے میٹرک پاس کر لیا۔
سعادت حسن منٹو بطور افسانہ نگار
سن 1947ء میں پاکستان آزاد ہوگیا تو منٹو نے زبردست افسانوں کی تخلیق شروع کردی۔ انسانی نفسیات ان کا اہم موضوع بنی جبکہ انصاف، سماجی ناانصافی اور عدم مساوات بھی منٹو کے موضوعات میں شامل رہے۔
ذہنی ہیجان اور انسانی فطرت کے منفی پہلوؤں کی عکاسی کرنے کے باعث سعادت حسن منٹو عوام الناس کی شدید تنقید کا نشانہ بھی بنتے رہے، تاہم انہوں نے اپنا بے باکانہ اندازِ تحریر کبھی ترک نہیں کیا۔ یوں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت بھی ایک مخصوص مقدار میں منٹو کا مقدر بنتی رہی۔
متنازعہ موضوعات پر تحریریں اورعوامی تنقید
منٹو کا تخلیقی دور جو 30ء کی دہائی سے لے کر 50ء کی دہائی پر محیط ہے، اس کے دوران متنازعہ موضوعات کو ہاتھ لگانا گویا جلتے ہوئے انگاروں پر قدم رکھنا تھا لیکن سعادت حسن منٹو اس خطرناک کام سے کبھی نہیں گھبرایا اور زندگی بھر یہی کرتا رہا۔
سعادت حسن منٹو نے معاشرے کے اس طبقے پر قلم اٹھایا جس کا نام لینا بھی اس دور میں گناہ سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے طوائفوں اور دلالوں پر قلم اٹھایا جبکہ مغرب میں یہ طرزِ تحریر ڈی ایچ لارنس سے مشابہ دکھائی دیتا ہے۔
ڈی ایچ لارنس نے معاشرے کے وہ موضوعات چنے جن پر لب کشائی حرام سمجھی جاتی تھی اور سعادت حسن منٹو بھی ہمیں اسی ڈگر پر چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں انسانی حقوق کی پامالیاں بھی منٹو کا اہم موضوع رہی ہیں۔
قانونی کارروائی اور ذاتیات پر تنقید
سعادت حسن منٹو کو متنازعہ موضوعات پر قلم اٹھانے کی پاداش میں بارہا قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ عدالت کے کٹہرے تک جا پہنچے، لیکن ایک سمجھدار اور ذہین انسان ہونے کے ناطے انہوں نے اپنا دفاع بخوبی کیا اور سلاخوں کے پیچھے جانےسے ہمیشہ محفوظ رہے۔
منٹو اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر تمہیں میری تحریر گھناؤنی لگتی ہے تو جس معاشرے میں تم رہتے ہو وہ بھی گھناؤنا ہے۔ انہوں نے اپنے بارے میں لکھے گئے ایک مضمون میں بتایا کہ بعض لوگ انہیں شیطان اور بعض گنجا فرشتہ کہتے تھے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعادت حسن منٹو کو قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ خلقِ خدا کی طرف سے بھی ذاتیات پر تنقید کا سامنا رہا جبکہ منٹو کی ذاتی زندگی بھی ان کی بعض عادات کے باعث متنازعہ سمجھی جاتی ہے۔
منٹو کے بارے میں ان کے اپنے خیالات
اپنی ذات پر تحریر کردہ ایک خاکے میں منٹو نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ شراب نوشی کرتے تھے۔ انہوں نے لکھا: یہ وہ وقت ہے جب وہ (یعنی منٹو) پیا کرتا ہے۔ اس ک شام 6 بجے کے بعد کڑوا شربت (یعنی شراب) پینے کی عادت ہے۔
خاکے میں سعادت حسن منٹو نے کہا کہ اسکول کی زندگی میں وہ بہت ذہین اور شریر انسان تھے۔ والدین کی آخری اولاد تھے اور ان کے تین بھائی ان سے عمر میں بہت بڑے تھے جو بیرونِ ملک تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
سعادت حسن منٹو چاہتے تھے کہ ان کے بھائی ان سے ملیں اور بڑے بھائیوں جیسا سلوک بھی کریں لیکن یہ سلوک نصیب نہ ہوسکا اور ہوا تو اس وقت جب منٹو نے افسانہ نگاری میں بڑا نام پیدا کر لیا تھا اور لوگ ان کے فن کی داد دے رہے تھے۔
منٹو کے مطابق ان کی ذات عقل و فہم سے بعض اوقات بالاتر ہوجاتی ہے۔ ان پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چلے، اس کے باوجود وہ طہارت پسند تھے اور تحریروں میں بہت سوچ سمجھ کر چھان پھٹک کر لکھنے کے قائل تھے۔
تخلیقات اور انوکھے عنوانات
سعادت حسن منٹو کی تخلیقات میں نمرود کی خدائی، شیطان، ٹھنڈا گوشت اور چغد مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ برقعے، پھندے، بادشاہت کا خاتمہ اور سرکنڈوں کے پیچھے بھی اہم تحریریں ہیں۔
منٹو نے اپنے افسانوں کے نام دیگر مصنفین کے مقابلے میں الگ رکھے ہیں کیونکہ ان کے موضوعات عام افسانہ نگاروں سے ہٹ کر تھے۔
مثال کے طور پر نیلی رگیں، بغیر اجازت، آتش پارے، خالی بوتلیں، لذتِ سنگ، تلخ ترش شیریں اور کالی شلوار جیسے نام سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی الگ پہچان متعین کرتے ہیں۔
منٹو کی وفات
سعادت حسن منٹو کا انتقال 18 جنوری 1955ء میں ہوا جس کی وجہ شراب نوشی تھی۔ زیادہ شراب نوشی کے باعث منٹو کا جگر خراب ہوگیا تھا جس کے بعد دنیائے ادب کا یہ مایہ ناز افسانہ نگار داعئ اجل کو لبیک کہہ گیا۔
دنیائے ادب سعادت حسن منٹو کو اگر سب سے بڑا افسانہ نگار نہیں مانتی تو ایک بہت بڑا افسانہ نگار ضرور مانتی ہے جس کی تخلیقات نے معاشرے کے ایسے چھپے ہوئے عیوب و نقائص کو نمایاں کیا جن پر بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔