”عورت مارچ“ ان کا حق ہے!

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں خواتین کے عالمی دن کی ایک خاص بات عورت مارچ ہے، اس مارچ کیلئے خواتین کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کیلئے ہر شعبہ زندگی کی خواتین سڑکوں پر نکلتی ہیں اوراہم بات تو یہ ہے کہ عورت مارچ میں ٹرن آؤٹ ہر سال بڑھ رہا ہے۔

2018ء میں کراچی سے شروع ہونیوالے عورت مارچ کا دائرہ پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور اب خواتین سماجی ، نسلی اور معاشی اور دیگر حقوق کیلئے آواز اٹھارہی ہیں۔

امسال بھی عورت مارچ میں خواتین کے خلاف تشدد کا معاملہ پوری شدت کے ساتھ اٹھایا گیا اور عوامی مقامات،گھروں اور دیگر جگہوں پر ہراسانی کا شکار ہونے والی عورتوں کے مسائل سامنے لائے گئے، اس بار بھی عورت مارچ کے شرکاء نے معاشی انصاف ، خواتین کے لئے مزدوری کے حقوق ،خواتین کی مساوی تنخواہ کا معاملہ اٹھایا۔

خواتین کو عورت مارچ کے بعد گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا، ان پربری عورتیں اور مغربی ایجنٹ ہونے کے ساتھ پاکستان کی ثقافت کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا اور انہیں سوشل میڈیا پر عصمت دری اورجان سے مارنے تک کی دھمکیاں مل رہی ہیں او رخواتین کو بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ بن چکا ہے کہ یہاں متاثرہ شخص کو ہی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی رویہ ہے کہ ہم زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کاساتھ دینے کے بجائے اسی سے سوالات کرتے اور اس کے لباس پر تنقید کرتے ہیں اور اس کے خاندان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں لیکن اصل مجرموں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔آج ہمارے معاشرے میں کئی پسماندہ اور اقلیتی طبقات ہیں جن کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور ان کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔

عورت مارچ کے شرکاء کو نجانے کیوں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں جان سے مارنے اور عصمت دری کی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن ان کے مسائل پر توجہ دینے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے جو اپنے حقوق کے لئے بات کرنے کا انتخاب کررہی ہیں؟۔

ملک میں ایک بحث یہ بھی جاری ہے کہ اسلام نے خواتین کو بہت سارے حقوق دیئے ہیں لیکن ان حقوق کے باوجود اس ملک کی خواتین کے خلاف ظالمانہ اور خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے جیسے عصمت دری ، جنسی طور پر ہراساں کرنا ، غیرت کے نام پر قتل ، جبری شادی ، زبردستی مذہب تبدیل کرنا یہ ایسے مسائل ہیں جن پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔

اس مارچ میں خواجہ سراء ، ہاری خواتین ، مزدور ، گھریلو کارکن ، پولیو ورکرز ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور بہت سے دوسرے پسماندہ گروہ موجود ہیں اوران امور کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جن کاانہیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کے دور اقتدار میں خواتین کے ساتھ غیر مساوی اور صنفی امتیاز کے قوانین نے خواتین کی تحریک کو جنم دیا تاہم اس کے بعد خواتین کے حقوق کیلئے کئی قوانین بھی وجود میں آچکے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کرنا اور معاشرتی ذہنیت کو تبدیل کرنا بنیادی چیلنج ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عورت مارچ مردوں یا معاشرے کیلئے خطرہ نہیں ہے بلکہ معاشرے میں پائے جانیوالے ناہموار رویوں کو درست کرنے اور مسائل حل کرنے کیلئے ایک نقطہ آغاز ہے، ہمیں عورت مارچ کو اپنے لئے خطرہ سمجھنے کے بجائے خواتین کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

میں ان سب لوگوں سے درخواست کرتا ہوں جو اس عورت مارچ کے خلاف ہیں ، اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنی ذہنیت کو تبدیل کریں اور اپنی سوچ کا دائرہ وسیع کریں،خواتین کو زندہ رہنے دیں ، خواتین کو اپنے مسائل اجاگر اورمارچ کرنے دیں۔

Related Posts