کریمہ بلوچ کا مقصد حیات اور پراسرار موت کے اسباب

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

karima baloch death

بلوچستان سے لاپتہ افراد اوربلوچستان کے حقوق کی تحریک کی رول ماڈل، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی پہلی خاتون چیئرپرسن کریمہ بلوچ دنیا میں نہیں رہیں، کریمہ بلوچ نے لاپتہ افراد اور حقوق بلوچستان کا معاملہ پوری شدت کے ساتھ اٹھایا اور یہی وجہ ہے کہ آج سیکڑوں خواتین ان کی پیروی کرتے ہوئے تحریک حقوق بلوچستان میں سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔

کریمہ بلوچ کون تھیں ؟
کریمہ کا اصل نام کریمہ محراب تھا لیکن وہ کریمہ بلوچ کے نام سے مشہور تھیں ،بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ نے تربت سے بی اے کیا اور بعد میں بلوچستان یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا لیکن اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث تعلیم جاری رکھ نہیں سکیں۔

کریمہ بلوچ کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں جبکہ ان کے والد مسقط کے ایک ہسپتال میں نوکری کرتے ہیں۔2014 میں فورسز نے تمپ میں ان کے گھر کو مسمار کردیا تھا جس کے بعد ان کی والدہ اور دونوں بہنیں کراچی منتقل ہوگئی تھیں جبکہ بھائی دبئی میں مقیم ہیں۔

بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن
2006ء میں بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے 3 دھڑوں کے انضمام کے بعد کریمہ بلوچ کو سینٹرل کمیٹی میں شامل کیا گیا جبکہ دو سال بعد کریمہ کو جونیئر نائب صدر بنایا گیا اور بعد ازاں بی ایس او کے سینئر نائب صدر ذاکر مجید کی گمشدگی کے بعد کریمہ نے ان کا عہدہ سنبھالا۔

بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کےرہنماء زاہد بلوچ کے لاپتہ ہونے کے بعد کریمہ بلوچ چیئرپرسن کی ذمہ داری سنبھال کر بی ایس او کی پہلی خاتون چیئرپرسن بنیں۔

2013 میں حکومت پاکستان کی طرف سے بی ایس او پر پابندی کے باوجود کریمہ بلوچ نے بلوچستان نے میں تنظیم کا سفر جاری رکھا اور مزید فعال انداز میں کام کرتی رہیں اور دور دراز علاقوں میں تنظیم کا پیغام پہنچاتی رہیں۔

احتجاجی تحریک اور جدوجہد
کریمہ بلوچ 2005ء میں ایک لاپتہ بلوچ نوجوان گہرام کی تصویر کے ساتھ منظر عام پر آئیں تاہم ان کا یہ سفر صرف مظاہروں تک محدود نہیں رہا بلکہ کریمہ بلوچ نے پہلی خاتون طلبہ رہنماء کے طور پر تربت سے کوئٹہ تک سڑکوں پر احتجاج کی روایت ڈالی۔

کریمہ بلوچ نے 2014ء میں مقامی خواتین کے ساتھ تمپ سے تربت تک لانگ مارچ کیا اور اس سے قبل 2013 میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے لانگ مارچ پر فائرنگ کے باوجود کریمہ بلوچ استقامت کے ساتھ کھڑی رہیں۔

تربت میں ایک ریلی میں احتجاج کے دوران ان پر انسداد دہشت گردی کا پہلا مقدمہ 2008 میں درج ہوا اور پھر انھیں اشتہاری قرار دیا گیا۔

جلاطنی
2016ء میں بی بی سی کی جانب سے دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل ‘کریمہ بلوچ پاکستان میں اپنی جان کو درپیش خطرات کے بعد کینیڈا چلی گئیں اور گزشتہ 5 سال سے پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم تھیں۔

کینیڈا میں ہی انھوں نے ایک سیاسی کارکن حمل بلوچ سے شادی کرلی تاہم شادی کے بعد بھی انہوں نے خود کو انسانی حقوق کی کارکن کے طور پر سرگرم رکھا اوریورپ سمیت جنیوا میں انسانی حقوق کے حوالے سے اجلاسوں میں شرکت کرتی رہیں اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھیں۔

پراسرار موت کے اسباب
کریمہ بلوچ اتوار 20دسمبر کولاپتہ ہوئیں،ٹورنٹو پولیس کی جانب سے ان کی تلاش میں مدد دینے کے لیے پیغام جاری کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق کریمہ بلوچ کو آخری بار 20 دسمبر 2020 کو تقریباً دوپہر تین بجے دیکھا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھیں۔

ٹورنٹو پولیس کا کہنا ہے کہ 37 سالہ کریمہ بلوچ کی موت مجرمانہ فعل نہیں ہے، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان کی موت کے حوالے سے کسی قسم کے مجرمانہ فعل کے شواہد ملے نہ ہی کسی مشکوک سرگرمی کے حوالے سے کچھ موجود ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر سماجی اور انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں نے کریمہ بلوچ کے قتل پر دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے موت کی فوری اور جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا جبکہ بعض لوگوں کی طرف سے پراسرار موت کیلئے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا جارہا تھا تاہم ٹورنٹو پولیس کی وضاحت کے بعد معاملہ صاف ہوگیا ہے۔

Related Posts