کراچی کی ایک کمپنی میں مبینہ طور پر گن پوائنٹ پر جنسی زیادتی ہوئی جس کے بعد سوشل میڈیا پر جسٹس فار صائمہ (صائمہ کیلئے انصاف) ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی رہائشی صائمہ پروین کا کہنا ہے کہ میں حنا کنول نامی این جی او کی ایک کارکن سے ملی جس سے میری جلد دوستی ہو گئی۔ حنا نے مجھے جلد سے جلد ملازمت کے حصول کا یقین دلایا۔ میرے پاس فون نہیں تھا تو حنا نے مجھے مجھے فون بھی لے کر دیا۔
اسلام آباد کی رہائشی متاثرہ لڑکی صائمہ کے بیان کے مطابق اگلے ہی روز حنا کنول نامی خاتون نے اسے کراچی بلا لیا جہاں ملازمت کا حصول یقینی تھا، تاہم جیسے ہی صائمہ کراچی پہنچی، کچھ ملزمان نے اسے حنا کنول کے سامنے ہراساں کرنا شروع کردیا۔
ملزمان میں سے ایک شخص نے صائمہ پر پستول تان لیا اور حنا کنول بھی ملزمان کے ساتھ مل گئی اور یہ کہہ کر چلتی بنی کہ یہ لوگ جو کہہ رہے ہیں، ویسا ہی کرو۔ ناصر عباس نامی ایک ملزم نے صائمہ کے ساتھ 2 بار جنسی زیادتی کی اور 2 گھنٹے تک حبسِ بے جا میں رکھا۔ بعد ازاں اسے بس اسٹاپ پر چھوڑ دیا گیا۔
دوسری جانب پولیس نے بھی صائمہ نامی ملزمہ کے الزام کے مطابق مقدمہ درج کرنے کے بعد مزید کارروائی سے انکار کردیا۔ صائمہ کے مطابق کراچی کمپنی کے ایس ایچ او راضی نامے پر دستخط کرانا چاہتے ہیں، بصورتِ دیگر انہوں نے ایف آئی آر ضائع کرنے کی دھمکی دی ہے۔
سوشل میڈیا پر صائمہ کیلئے انصاف آج کا ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں آصف شہزاد نامی صارف نے کہا کہ صائمہ اپنے اخراجات کیلئے ملازمت چاہتی تھی لیکن ایک کمپنی میں اس کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔ آج ایک نیا دن ہے اور ہم جنسی زیادتی کے ایک نئے واقعے کا سامنا کر رہے ہیں۔
Another day another same story. Saima was a hardworking women just wanted to get the job to pay her expenses. But she got raped on gunpoint in a company in Karachi . Now police is forcing her to sign consent papers. @BBhuttoZardari#justiceForSaima pic.twitter.com/RYtdahWVSC
— M Asif Shahzad (@theasifshahzad) September 20, 2020
یہ بھی پڑھیں: اوکاڑہ میں 70 سالہ امام مسجد کی 10 سالہ بچی سے زیادتی