وقت گذرنے کے ساتھ پروبائیوٹکس کے صحت سے متعلق فوائد کے بارے میں سائنسی شواہد جمع ہو رہے ہیں کیونکہ نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دہی میں ایک چمچ شہد ڈال کر کھانے سے اس میں موجود پروبائیوٹکس کو آنتوں میں رہنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک ایسا مجموعہ ہے جس سے دو مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ اول یہ صحت کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے اور دوم یہ مزیدار ذائقے کا ذریعہ بنتا ہے۔
عرب نیوز نے نیو اٹلس ویب سائٹ میں شائع ایک طبی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس بات کے قطعی ثبوت موجود ہیں کہ پروبائیوٹکس لینے سے موڈ اور آنتوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چونکہ شہد کو عام طور پر دہی میں شامل کیا جاتا ہے اور یہ پروبائیوٹکس کا ذریعہ ہے۔ اس لیے یونیورسٹی آف الینوائے کے محققین دو مطالعات کے ذریعے گٹ مائکرو بایوم پر دہی میں شامل کرنے کے اثرات کا مطالعہ کررہے ہیں۔
امریکہ کے ایگریکلچر، کنزیومر اینڈ انوائرمنٹل کالج کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ہیومن نیوٹریشن کی اسسٹنٹ پروفیسر ہننا ہولشر کا کہنا ہے کہ محققین “دہی اور شہد کے امتزاج کے اثرات میں دلچسپی رکھتے تھے، کیونکہ یہ ایک متوسط درجے کی غذا ہے۔ الینوائے یونیورسٹی میں سائنسز نے دو مطالعات اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ نظام انہضام کے مائیکرو بایوم کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
پہلی تحقیق میں محققین نے اس بات کا جائزہ لیا کہ آیا کمرشل بنیادوں پر تیار کردہ دہی میں چار قسم کے شہد یعنی سہ شاخہ، بکواہیٹ یا نیرولی شامل کرنے سے دہی میں پروبائیوٹکس کی بقا متاثر ہوتی ہے۔ محققین نے 42 گرام (یا دو کھانے کے چمچ کے برابر) شہد کو 170 گرام (ایک کپ کے دو تہائی) دہی میں شامل کیا اور اس مرکب کو تجربہ گاہ میں حل کرنے کے لیے رکھ دیا۔ اس میں منہ، معدے اور آنتوں میں ہاضمے کی تحریک پر تحقیق کی گئی۔
مسز ہولشر نے مزید کہا کہ “منہ، معدے اور آنتوں میں موجود خامرے ہاضمے میں مدد کرتے ہیں اور غذائی اجزاء کو جذب کرنے میں مدد کرتے ہیں، لیکن وہ فائدہ مند بیکٹیریا کی بقا کو بھی کم کرتے ہیں”۔ محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا شہد شامل کرنے سے پروبائیوٹک بیکٹیریا کو آنتوں میں زندہ رہنے میں مدد مل سکتی ہے۔
محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زبان اور معدے کی نسبت شہد کی مختلف اقسام اور کنٹرول ورژن (دہی کو چینی یا پانی میں ملا کر) کے درمیان بی اینیملیز بیکٹیریا کی بقا میں کوئی فرق نہیں دیکھا گیا۔ لیکن شہد کے ساتھ دہی خاص طور پر سہ شاخہ شہد ہاضمے کی آنتوں کے مرحلے میں پروبائیوٹکس کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
محققین نے پھر کلینیکل مطالعہ میں پہلے مطالعہ سے اپنے نتائج کا تجربہ کیا۔ چھیاسٹھ صحت مند بالغوں کو تصادفی طور پر دو گروپوں کو تفویض کیا گیا۔ کنٹرول گروپ نے دو ہفتوں تک روزانہ دو باربی انیملیز کے ساتھ 170 گرام کمرشل پاسچرائزڈ دہی کھایا، اور علاج کرنے والے گروپ نے اتنی ہی مقدار میں دہی کے علاوہ 21 گرام سہ شاخہ شہد کھایا۔ تقریبا ایک جیسے وقت میں دو ہفتے بعد چار ہفتے کے واش آؤٹ کی مدت کے بعد، علاج اور کنٹرول گروپس کو تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد شرکاء سے کہا گیا کہ وہ اضافی یا غذائی پروبائیوٹکس، دودھ کی مصنوعات، یا خمیر شدہ غذائیں نہ لیں۔ پاخانہ کے نمونے اور آنتوں کی حرکات کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں، ساتھ ہی ساتھ موڈ، ادراک اور عمومی صحت کا اندازہ کرنے والے سوالنامے مکمل کیے گئے۔
پروفیسر ہولشرنے کہا کہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ شہد کو دہی کے ساتھ جوڑنا آنتوں میں دہی کے پروبائیوٹک بیکٹیریا کی بقا میں مدد کرتا ہے، اس لیے لیبارٹری کے مطالعے کے نتائج نے انسانوں میں حقیقی دنیا کےحالات کے اطلاق میں تجربہ کیا گیا”۔
پروفیسر ہولشر کا کہنا ہے کہ “دہی میں شہد کا ایک چمچ پروبائیوٹکس کی بقا میں مدد کرتا ہے، تاہم اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ شہد ایک اضافی چینی ہے، اور لوگوں کو اپنی خوراک میں چینی کی مقدار سے آگاہ ہونا چاہیے۔ صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنے کے لیے بھی شہد کے متوازن استعمال کو یقینی بنانا چاہیے۔بغیر میٹھے دہی میں تھوڑا سا شہد شامل کرنا مینو میں شامل کرنے کے لیے ایک اچھا مجموعہ ہے”۔