ماحولیاتی آلودگی ہر انسان کیلئے تشویشناک ہے، ڈاکٹر جمیل احمد خان

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی: سابق سفیر ڈاکٹر جمیل احمد خان نے کہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے آغا خان یونیورسٹی اور اسپتال کے اقدامات قابل تقلید ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کے سابق سفیر، سینئر تجریہ کار اور آغا خان یونیورسٹی کے مشیر ڈاکٹر جمیل احمد خان نے آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں عالمی یومِ ماحولیات کے موقعے پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے آغا خان یونیورسٹی اور اسپتال کے اقدامات قابل تقلید ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

نو مئی میں ملوث ملزمان رعایت کے مستحق نہیں۔خواجہ آصف

خطاب کے دوران سابق سفیر جمیل احمد خان نے کہا کہ آغا خان یونیورسٹی کے صدر سلیمان شہاب الدین نے ماحولیاتی آلودگی کو اپنے ادارے کی سب سے بڑی ترجیحات میں شامل کرلیا ہے اور ان ترجیحات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنے آفس میں ماحولیاتی پائیداری کاشعبہ بھی قائم کردیا ہے جس کے نتیجے میں آغا خان یونیورسٹی کے تمام اداروں  میں پلاسٹک کا استعمال ترک کرکے ملک میں ایک روشن مثال قائم کردی ہے۔

آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے زیر اہتمام سیمینار میں  ملک بھر سے اہم اداروں نے حصہ لیا اور مقررین نے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب کے اختتام پر آغا خان یونیورسٹی صدر آفس کی ایگزیکٹو آفیسر ربیعہ سلیم نے شرکاء سے اظہار تشکر کے کلمات ادا کئے۔

تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل احمد خان نے کہا کہ آغا خان یونیورسٹی نے ایک ادارے کے طور پر دنیا بھر میں اپنے تمام ذیلی اداروں میں پلاسٹک کا استعمال ترک کردیا ہے اور ان اقدامات کا اثر 2030ء تک آغا خان کے تمام اداروں پر مرتب ہوگا۔

سابق سفیر جمیل احمد خان نے کہا کہ ماحولیات پاکستان سمیت پوری دنیا کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ تقریباً 400 ملین یعنی 40 کروڑ ٹن پلاسٹک دنیا میں پیدا ہوتا ہے جس کا تقریباً 90 فیصد دنیا کے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں میں بہہ جاتا ہے ۔

ڈاکٹر جمیل احمد خان نے کہا کہ پلاسٹک کی ہی شکلیں جب تبدیل ہوتی ہیں تو اس کا اثر نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرنداور سمندری حیات پر بھی پڑتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف صحت بلکہ افزائش نسل اور دماغی صحت پر بھی فرق پڑتا ہے۔

جمیل احمد خان نے کہا کہ اب تو نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ نظر نہ آنے والے مائیکرو پلاسٹک کے ذرّات پانی اور ہوا میں تحلیل ہوکر ناسور کی طرح پھیل رہے ہیں اور انسانی خون کے ٹیسٹ اور ماؤں کے دودھ میں بھی اس کے ذرّات پائے جاتی ہیں۔

کراچی کے گرد نواح میں فضائی آلودگی کی وجہ سے آبی حیات کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمیل احمد خان کا کہنا تھا کہ مچھلیاں مرتی جارہی ہیں اور جو زندہ بچ جاتی ہیں وہ اتنی خطرناک ہوجاتی ہیں جو کھانے والوں کو مختلف امراض کا شکار بنادیتی ہیں۔

پولٹری مصنوعات کو دی جانیوالی غذا میں بھی یہ پلاسٹک کے ذرّات شامل ہونے کی وجہ سے انسانوں کی غذا زہر آلود بنتی جارہی ہے اور کراچی میں بیشتر کچرا سمندر کی نذر ہونے کی وجہ سے آبی حیات تیزی سے معدومیت کے خطروں سے دوچار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں ماحولیاتی چیلنجز نہ صرف اداروں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کیلئے انتہائی ضروری ہوچکے ہیں جس پر قابلِ عمل اور معنی خیز اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ حالات کو بہتری کی طرف لے جایا جاسکے۔

Related Posts