آزادی کے پچھتر سال گزر جانے کے باوجود پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی ہنوز انتہائی مایوس کن ہے جبکہ ایک مضبوط جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار کی تقسیم میں ملک کے تمام طبقات کو مناسب نمائندگی دی جائے۔
خواتین کی نمائندگی کو ان کی تعداد کے اعتبار سے ایک حد تک لانے کی کوششوں میں حالیہ ویمن ریزرویشن بل ایک اچھا قدم ہے۔ اسے بہت پہلے آجانا چاہئے تھا۔
ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بل کے مسودہ میں او بی سی اور مسلم خواتین کو الگ رکھا گیا ہے۔ اس طرح کے بل سے جس میں ان دو طبقوں کو شامل نہیں کیا گیا، او بی سی اور مسلم کمیونٹی کی خواتین کو نظر انداز کرنا حیرت ناک ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ایرانی پارلیمان نے خواتین کیلئے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی سزائیں سخت کر دیں
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ نمائندگی ان کی آبادی کے اعتبار سے قطعی نہیں ہے۔ پروفیسر سلیم نے کہا کہ بل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اگلی مردم شماری کے بعد ہی عمل میں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بل کے فائدے 2030ء کے بعد ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بل آئندہ پارلیمانی انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے سامنے لایا گیا ہے اور اس کے نفاذ میں اخلاص کی کمی نظر آرہی ہے۔ جبکہ ملک میں سماجی عدم مساوات کو دور کرنے کے لئے ریزرویشن ایک موثر طریقہ ہے جسے عمل میں لاکر اس کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بل یعنی ویمن ریزرویشن بل میں او بی سی اور مسلم خواتین کو نظر انداز کرنا ناانصافی ہوگی اور حکومت کا جو نعرہ ہے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس’‘‘ یہ عمل اس پالیسی کے بھی خلاف ہے۔