وزیر خزانہ اسحاق ڈار پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی بدترین تباہی سے پیدا شدہ سنگین صورتحال میں بین الاقوامی قرض دہندگان سے کچھ ریلیف حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک سے بات چیت کے لیے ایک وفد کے ہمراہ امریکا پہنچ گئے ہیں۔
اسحاق ڈار کی جانب سے اپنے منصب کا چارج سنبھالنے کے بعد سے ڈالر کی قیمت مسلسل سے کم ہو رہی تھی، لیکن ڈالر کی قیمت میں گراوٹ کا یہ تسلسل اس وقت ٹوٹا جب بدھ کے روز آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ اسحاق ڈار کی بات چیت کی خبر سامنے آئی، چنانچہ کرنسی مارکیٹ میں جناب ڈار کی آمد کے بعد گزشتہ روز پہلی مرتبہ روپے نے گرین بیک کے مقابلے میں استحکام کا تسلسل کھو دیا۔
گزشتہ ماہ حکومت نے اگلے پندرہ دن کے لیے تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً 5 فیصد کمی کی تھی۔ حکومت نے یہ قدم آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے برخلاف اٹھایا، کیونکہ معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ حکومت پاکستان ہر ماہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرکے محصولات جمع کرے گی۔
اسحاق ڈار صاحب پہلے بڑے پر اعتماد نظر آرہے تھے اور آتے ہی فرمایا تھا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کو کس طرح ڈیل کرنا ہے، تاہم اب لگتا ہے کہ ان کا وہ اعتماد کچھ متزلزل ہوگیا ہے، چنانچہ اب انہوں نے قدرے مایوسی کے ساتھ اس امر کا گویا اعتراف کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاہدے میں کوئی رد و بدل ممکن نہیں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال مثالی نہیں ہے، خاص طور پر سیلاب کی تباہ کاریوں نے معیشت پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں اور پہلے سے بیمار معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔
معیشت کی تیس ستمبر تک کی صورتحال یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر سات اعشاریہ نواسی بلین ڈالر، جبکہ ملک کے کل زرمبادلہ کے ذخائر تیرہ اعشاریہ چھ بلین ڈالر تھے، جس میں پانچ اعشاریہ انہتر بلین ڈالر کمرشل بینکوں کے شامل ہیں، جس سے معیشت کی زبوں حالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اسحاق ڈار کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مذاکرات کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں، کیونکہ اسحاق ڈار کے بیانات اور آئی ایم ایف کے “فرامین” کا تجزیہ کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف جناب اسحاق ڈار پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ دیے گئے منصوبے پر ہر صورت قائم رہیں اور اس سے ادھر ادھر ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اس صورتحال میں یہ یقیناً جناب ڈار کی مہارت اور صلاحیت کا امتحان ہو گا کہ آیا وہ اس مشکل منظر نامے میں بین الاقوامی قرض دہندگان سے ملک کے لیے کچھ ریلیف حاصل کر سکتے ہیں یا خالی ہاتھ لوٹیں گے۔