کیا سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف وطن واپس آنے کیلئے تیار ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

متعدد صحافیوں کا نوازشریف کی تقاریر پر لگی پابندی کے خلاف عدالت جانے کا انکشاف
متعدد صحافیوں کا نوازشریف کی تقاریر پر لگی پابندی کے خلاف عدالت جانے کا انکشاف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے مطابق ان کے والد وطن واپس آنے کیلئے بے چین ہیں۔

اگر سیاسی پروپیگنڈے کا جائزہ لیا جائے تو میاں نواز شریف ن لیگ کے مطابق خود حکومتِ وقت کی اجازت کے ساتھ علاج کیلئے بیرونِ ملک گئے۔ دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف کو بیرونِ ملک بھیجنا ایک عدالتی فیصلہ تھا۔

آئیے شریف خاندان کے سب سے اہم فرد اور سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے علاج سمیت دیگر اہم مسائل پر نظر ڈالتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا نواز شریف وطن واپسی کیلئے تیار ہیں؟

نواز شریف کی لندن روانگی 

گزشتہ برس 19 نومبر کو سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف علاج کی غرض سے اپنے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائدِ حزبِ اختلاف قومی اسمبلی شہباز شریف کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ معالج ڈاکٹر عدنان سمیت 2 ملازمین تھے جبکہ نواز شریف کو ائیر ایمبولینس کے ذریعے لاہور ائیرپورٹ سے لندن روانہ کیا گیا۔

روانگی سے قبل نواز شریف کے تمام تر ضروری ٹیسٹ کیے گئے تھے۔ معالجوں نے کلیئرنس دی جس کے بعد مریم نواز اور اہلِ خانہ نے لاہور ائیرپورٹ سے نواز شریف کو الوداع کہہ دیا جبکہ وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے نواز شریف کے الفاظ مجھے کیوں نکالا کو خدا کیلئے مجھے نکالو کا رنگ دے دیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ مجھے کیوں نکالا سے خدا کیلئے مجھے نکالو کا سفر اختتام کی طرف گامزن ہے۔ ایسے رہنماؤں کا ووٹ کیلئے عزت مانگنا جمہوری نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ 

لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر اپیل نہ کرنے کا حکومتی  فیصلہ

وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ سابق وزیرِ اعظم کے حق میں لاہور ہائی کورٹ نے انہیں بیرونِ ملک بھیجنے کی اجازت دینے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کے خلاف کوئی اپیل نہ کی جائے جس کی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے مخالفت کی۔

وزیرِ آبی مسائل فیصل واؤڈا بھی حکومتی فیصلے کے خلاف تھے، تاہم وفاقی کابینہ کے اکثر اراکین نواز شریف کی راہ میں روڑے اٹکانے کے حق میں نہیں تھے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے ڈاکٹرز کی رپورٹس اور انسانی ہمدردی کے تحت نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کی اجازت دی۔ 

لندن میں سابق وزیرِ اعظم کی مصروفیات 

سب سے پہلے ن لیگ کے تاحیات قائد اور سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف میڈیکل معائنے کیلئے لندن کے معروف ہسپتال گائز اینڈ تھامس پہنچے جہاں حسن نواز اور حسین نواز کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عدنان بھی موجود رہے۔ یہاں خون، دل اور گردوں کے ٹیسٹ کرائے گئے۔

ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ نواز شریف کی طبیعت اب پہلے سے بہتر ہے، رپورٹس کے بعد فیصلہ کریں گے کہ نواز شریف کو علاج کیلئے امریکا منتقل کرنا ضروری ہے یا نہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کے مزید ٹیسٹ بھی ہوں گے تاکہ ڈاکٹر پلیٹ لیٹس میں مزید کمی کی وجوہات پر روشنی ڈال سکیں۔

کچھ روز بعد ذاتی معالج نے کہا کہ نواز شریف کی صحت بحال ہونے میں کچھ مہینے لگ سکتے ہیں۔ صحت راتوں رات ٹھیک نہیں ہوگی۔ علاج کی نگرانی پر کنسلٹنٹس کی ایک ٹیم مقرر ہے۔ اگلے کچھ روز میں نواز شریف لندن برج ہسپتال جا پہنچے جہاں ان کے پھر کچھ ٹیسٹ کیے گئے۔

معالجین نے سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو تجویز دی کہ اب ہسپتال میں داخل ہوجائیں۔ 19 نومبر سے 25 نومبر تک نواز شریف 3 بار طبی معائنے کیلئے گھر سے باہر گئے۔ دسمبر کے آغاز میں ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ نواز شریف کے دماغ کو جانے والی شریان بند ہے جسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔

دسمبر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ نواز شریف کے دماغ کی سرجری ہوگی یا اسٹنٹ ڈالیں گے۔ سابق وزیرِ اعظم کے پلیٹ لیٹس کی تعداد غیر مستحکم ہے۔ دواؤں کے ذریعے انہیں خاص سطح پر برقرار رکھا جا رہا ہے۔ پی ای ٹی اسکین میں 1 سے زائد لیمف نوڈز پائے گئے۔

پاکستان میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت 

ایک طرف تو نواز شریف کا لندن میں علاج اور مختلف سرگرمیاں جاری تھیں جبکہ اسی دوران پاکستان میں عدلیہ سابق وزیرِ اعظم کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی کرتی رہی۔

العزیزیہ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت کی تاریخ 18 دسمبر مقرر کی۔ ہائی کورٹ میں 2 اپیلیں دائر ہوئیں جن کی سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ججز کے ڈویژن بینچ نے کی۔واضح رہے کہ العزیزیہ ریفرنس میں پہلے ہی نواز شریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپیل دائر کی جس میں کہا گیا کہ نواز شریف کی سزا میں اضافہ کیا جائے جبکہ نواز شریف کی طرف سے سزا کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی گئی۔ 18 دسمبر کو عدالت نے اضافی دستاویزات جمع کرانے اور نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی۔

مزید قیام کی اجازت دینے کی درخواست اور پنجاب حکومت کا ردِ عمل

اسی دوران سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پنجاب حکومت سے لندن میں مزید قیام کی اجازت دینے کی درخواست کی جس پر صوبائی حکومت نے درخواست پر غور کیلئے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ واضح رہے کہ درخواست میں نواز شریف نے کسی مخصوص مدت کا ذکر نہیں کیا تھا۔

درخواست پر غور کیلئے پنجاب حکومت کی طرف سے قائم کردہ 4 رکنی کمیٹی کی قیادت وزیرِ قانون پنجاب بشارت راجہ نے کی۔ کمیٹی کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ نواز شریف کی مدتِ قیام میں توسیع کی جائے یا نہ کی جائے۔

چوہدری شوگر ملز کیس

رواں برس 3 جنوری کے روز لاہور کی احتساب عدالت میں چوہدری شوگر ملز کیس کی سماعت ہوئی۔ نواز شریف کی طرف سے عدالت کو سماعت اور دفاع کیلئے حاضری سے قبل مہلت دینے کی درخواست کی گئی۔ عدالت نے 17 جنوری تک نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی۔

احتساب عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ وکیلِ صفائی 14 روز تک سابق وزیرِ اعظم کی میڈیکل رپورٹس جمع کرائیں۔ مہلت دینے کی درخواست منظور کر لی گئی۔

زیرِ علاج نواز شریف کی تصویریں اور حکومت کا ردِ عمل

حیرت انگیز طور پر 13 جنوری کے روز نواز شریف کی کچھ تصویریں منظرِ عام پر آئیں جن میں انہیں ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے دکھایا گیا۔ تصویر میں وہ صحت مند دکھائی دئیے جس پر وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کی طرف سے سخت ردِ عمل سامنے آیا۔

محکمۂ داخلہ پنجاب نے اگلے ہی روز نواز شریف کو حکم دیا کہ 2 روز کے اندر اندر اپنی تازہ ترین میڈیکل رپورٹس بھجوائیں۔ محکمۂ داخلہ نے سابق وزیرِ اعظم کو لندن رہائش گاہ پر ایک خط بھی ارسال کیا جس میں کچھ نکات اٹھائے گئے۔

صوبائی محکمۂ داخلہ نے خط کے ذریعے نواز شریف سے کہا کہ آپ کی میڈیکل رپورٹس کاجائزہ لینے کیلئے میڈیکل بورڈ بٹھایا جائے گا جو لندن میں قیام پر توسیع دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے گا۔ یہ خط ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے ساتھ ساتھ ن لیگی رہنما عطا تارڑ کو بھی بھیجا گیا۔ تصاویر پر وزیرِ اعظم کی طرف سے سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا گیا۔

لاہورمیں یاسمین راشد کی نیوز کانفرنس

پنجاب کی وزیرِ صحت یاسمین راشد نے لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 25 دسمبر کو سابق وزیرِ اعظم کی مدتِ ضمانت ختم ہو گئی۔ پھر بھی ہمیں کوئی رپورٹ نہیں بھیجی جاسکی۔ بتایا جائے کیا سیر کو علاج کا حصہ سمجھیں؟

مریم نواز کی طرف سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام خارج کرنے کی درخواست پر ردِ عمل دیتے ہوئے یاسمین راشد نے سوال کیا کہ کیا ن لیگ کی نائب صدر اپنے والد کی تیمارداری کیلئے ریسٹورنٹ جائیں گی؟میڈیکل رپورٹس مکمل نہیں ہیں۔ ہم عدالت کے سامنے خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں۔ 

جعلی میڈیکل رپورٹس کا انکشاف

جنوری کے دوران 20 تاریخ کو میاں نواز شریف کی طبی رپورٹس میں جعلسازی کا انکشاف ہوا جس پر پنجاب کی صوبائی حکومت نے رپورٹ مسترد کردی۔ بھجوائی گئی جعلی رپورٹ میں اصل معالج کی رپورٹ بھی شامل نہیں تھی جس پر رپورٹ کو مسترد کردیا گیا۔

بعد ازاں 10 روز بعد 30 جنوری کو حکومتِ پنجاب نے کہا کہ نواز شریف 3 روز کے اندر اندر میڈیکل رپورٹ جمع کرائیں۔ 25 فروری کو صوبائی کابینہ نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع دینے سے انکار کردیا۔ 

واپسی کیلئے حکومتی کوششیں، حالیہ عدالتی کارروائی اور نواز شریف کی حقیقی خواہش

حقیقت یہ ہے کہ سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف وطن واپس آنا نہیں چاہتے جن کی واپسی کیلئے حکومت سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ حکومت نے رواں برس 4 مارچ کو نواز شریف کی ملک بدری کیلئے خط بھی برطانوی حکام کے حوالے کیا، تاہم اس پر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔

شوگر ملز کیس میں نواز شریف اور مریم نواز کو حاضری سے 30 مارچ کو استثنیٰ دیا گیا۔ یکم مئی کو مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف کا علاج جاری ہے جبکہ ان کی سرجری کورونا وائرس کے باعث ملتوی ہوئی۔

اس کے بعد 29 مئی کو عدالت نے توشہ خانہ کیس میں نواز شریف کے وارنٹ جاری کردئیے۔ 31 مئی کو نواز شریف کے ذاتی معالج مریم نواز کی بیٹی کے ہمراہ لاہور پہنچ گئے۔ 11 جون کو احتساب عدالت اسلام آباد نے نواز شریف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

جون کے دوران 12 تاریخ کو نواز شریف کی واک کرتے ہوئے تصاویر جاری کی گئیں۔ 6 جولائی کو وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے مطالبہ کیا کہ حکومتِ برطانیہ نواز شریف اور بانئ متحدہ کو ہمارے حوالے کرے۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف کیسز عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔ حکومت کی کوششیں جاری ہیں اور نواز شریف کی واپسی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ایسے میں مریم نواز کا یہ بیان کہ نواز شریف وطن واپسی کیلئے بے چین ہیں، اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔ 

Related Posts