اسلامی جمہوریہ ایران میں 18 جون کو جمعے کے روز صدارتی انتخابات منعقد ہورہے ہیں جس میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے اختیارات از سر نو مؤثر ہونے کا امکان ہے۔
ایران کے صدارتی انتخاب میں 5 اہم امیدوار دائیں بازو سے جبکہ 2 معتدل نظریات کے حامل ہیں۔ حسن روحانی کے قانونی طور پر تیسری بار صدر کا عہدہ سنبھالنے پر پابندی عائد ہے۔
دوہرے نظام کے حامل ایرانی نظامِ جمہوریت میں صدر ہی حکومت کی فعال سربراہی کا ذمہ دار ہوتا ہے تاہم اسے سپریم لیڈر کو رپورٹ دینا ہوتی ہے جو ملک کا سب سے بڑا عہدیدار سمجھا جاتا ہے۔
ابراہیم رئیسی
سن 2017ء میں ایرانی عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی حسن روحانی سے انتخاب ہار گئے جنہیں امریکا نے خامنہ ای کے اندرونی حلقے کا رکن قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
واشنگٹن حکومت کا کہنا تھا کہ رئیسی نام نہاد مرگ کمیشن میں شریک ہو گئے ہیں جس نے ہزاروں کی تعداد میں سیاسی قیدیوں کو 1988ء میں ماورائے عدالت قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
دوسری جانب ایران نے کبھی بھاری تعداد میں سزائے موت کے الزام کوتسلیم نہیں کیا۔ تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلامی انقلاب کے ابتدائی سالوں میں مسلح جدوجہد کچلنے کیلئے مقدمات غیر جانبدارانہ اور شفاف تھے۔
ابراہیم رئیسی ایران کی ماہرین اسمبلی کے ڈپٹی سربراہ ہیں جو سپریم لیڈر کی تعیناتی اور احتساب کی ذمہ دار قرار دی جاتی ہے۔ اگر ابراہیم رئیسی الیکشن جیت گئے تو وہ خامنہ ای کی جگہ لینے کیلئے ضرور کوشش کریں گے۔
سعید جلیلی
سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے منظورِ نظر افراد میں شامل سعید جلیلی 1980ء کی ایران عراق جنگ کے دوران انقلابی گارڈز کیلئے لڑتے ہوئے اپنی دائیں ٹانگ سے محروم ہو گئے تھے۔
انہوں نے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔ سعید جلیلی ایران کے نظرئیہ ولایتِ فقہ کے نظام پر یقین رکھتے ہیں جو اسلامی حکومت اور سپریم لیڈر کے وجود کی سب سے بڑی دلیل سمجھا جاتا ہے۔
قبل ازیں آیت اللہ خامنہ ای نے سعید جلیلی کو سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل میں سیکریٹری مقرر کیا تھا جو 2007ء سے لے کر آئندہ 5 برس تک اسی عہدے پر فائز رہے اور آگے چل کر نیوکلیائی امور میں چیف مشاورت کار بن گئے۔
بعد ازاں 4 برس سعید جلیلی نے سپریم لیڈر کے آفس میں گزارے اور 2013ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لے کر ناکام ہوئے۔ ڈپٹی وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے انہیں ایکسپیڈینسی کونسل میں بھی رکنیت حاصل ہوئی جس کا کام پارلیمان اور حفاظتی کونسل کے تنازعات حل کرنا ہے۔
عبدالناصر ہیماتی
چین میں ایران کے سابق سفیر عبدالناصر ایک ٹیکنوکریٹ ہیں جو ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ کی حیثیت سے 2018ء سے لے کر آئندہ 3 سال تک تعینات رہے۔ گزشتہ ماہ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس سے قبل عبدالناصر ہیماتی اسلامی جمہوریہ ایران براڈ کاسٹنگ کے نائب صدر اور ایرانی مرکزی انشورنس کمپنی کے گورنر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ایرانی بینک میلی میں چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔
محسن رضاعی
جمہوریہ ایران کی ایکسپیڈنسی کونسل کے سیکریٹری محسن رضاعی کو ایران کے انقلابی گارڈز کا ٹاپ کمانڈر سمجھا جاتا ہے جس نے 1980ء کی 8 سالہ ایران عراق جنگ کے دوران فوج کی قیادت کی۔
سابقہ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے محسن رضاعی 3 انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور 2005ء میں انہوں نے اس دوڑ میں حصہ لینا چھوڑ دیا۔ محسن رضاعی معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔
آج سے 14 سال قبل 2007ء میں ارجنٹینا کے حکام نے محسن رضاعی اور ان کے 4 دیگر ایرانی اور 1 لبنانی ساتھی کی گرفتاری کیلئے انٹرپول سے وارنٹ حاصل کر لیے تھے جس کی وجہ یہودی کمیونٹی سنٹر کے 85 افراد کی بم حملے میں ہلاکت تھی اور یہ واقعہ 1994ء میں پیش آیا۔
محسن مہر علی زادے
صوبہ اصفہان کے سابق گورنر محسن مہرعلی زادے سن 2005ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے 7 امیدواروں میں شامل تھے۔
یہ معتدل نظریات کے حامل امیدوار سن 2001ء میں پہلی بار نائب صدر منتخب ہوئے تھے اور صدر محمد خاتمی کے عہد میں انہوں نے خدمات بھی سرانجام دیں۔ اصلاحی امیدواروں میں نام شامل نہ ہونے کے باعث نگراں کونسل نے انہیں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔
علی رضا ذکانی
قانون ساز علی رضا ذکانی کو 2013ء اور 2017ء میں صدارتی انتخابات کی دوڑ سے نااہل قرار دے کر باہر کردیا گیا تھا جو نیوکلیائی طب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں اور ایران عراق جنگ میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔
غربت اور بدعنوانی سمیت متعدد چیلنجز ایران کے سامنے ہیں اورعلی رضا ذکانی کا کہنا ہے کہ میں تمام تر چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے بہترین صدارتی امیدوار ہوں جس کا ایرانی عوام انتخاب کریں گے۔
عامر حسین غازی زادے ہاشمی
گزشتہ 13 برس سے رکنِ اسمبلی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے والے عامر حسین غازی زادے ہاشمی ایک پختہ نظریات کے حامل سیاستدان ہیں جو ایران کی تباہ حال معیشت کو سہارا دینے کے دعویدار ہیں اور طب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔