وطنِ عزیز پاکستان سمیت دنیا بھر میں پینے کے پانی سے متعلق مسائل پر گفتگو اور شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ بنی نوع انسان کیلئے پانی جتنا اہم ہے، اتنی ہی تیزی اور بے احتیاطی کے ساتھ اسے ضائع کیا جاتا ہے۔
ہر سال 22 مارچ کے روز عالمی یومِ آب منایا جاتا ہے جس کا مقصد پینے کے پانی کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ آئیے یومِ آب کے موقعے پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانی سے متعلق اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہیں۔
عالمی یومِ آب اور اقوامِ متحدہ
آج سے 29 برس قبل 1992ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیریو میں اقوامِ متحدہ نے ایک کانفرنس منعقد کی جو ماحول اور ترقی سے متعلق تھی جس کے بعد 1993ء سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جانے لگا۔
عالمی ادارے اقوامِ متحدہ نے رواں برس عالمی یومِ آب کا موضوع پانی اور موسمیاتی تبدیلیاں رکھا ہے کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم اور تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے ماحول کے نتیجے میں کرۂ ارض پر پانی کی قلت میں اضافہ ہوگا۔
درختوں، پودوں اور حیوانات کے پھلنے پھولنے کیلئے پانی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں کم از کم 60 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ زمین کا 71 فیصد حصہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے۔
پانی سے متعلق اعدادوشمار
سن 2050ء تک دنیا کی آبادی 7 ارب سے تجاوز کرکے 9 ارب تک جا پہنچے گی جنہیں ہر روز خوراک کے ساتھ پینے کے صاف پانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہر انسان ہر روز 2 سے 4 لیٹر پانی پینے کیلئے استعمال کرتا ہے جس میں ٹھوس اور نرم غذا میں موجود پانی بھی شامل ہے۔ دنیا بھر کے تقریباً 17 ممالک پانی کی قلت کا شکار ہیں۔
کم و بیش 2 ارب 10 کروڑ انسان پینے کے صاف پانی سے آج بھی محروم ہیں۔ دنیا بھر کے ہر 4 میں سے 1 اسکول میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ہر روز 700 بچے 5 سال کی عمر سے قبل ڈائریا کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔
دیہاتوں میں آباد دنیا کے 80 فیصد لوگ سیوریج ملا گندا یا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ 15 کروڑ 90 لاکھ افراد پانی زمین کی بجائے تالابوں اور ندی نالوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ 2030ء تک 70 کروڑ افراد پانی کی قلت کے باعث بے گھر بھی ہوسکتے ہیں۔
ذخائر تعمیر کرنے کی ضرورت
قیامِ پاکستان کے وقت ہر انسان کیلئے 5 ہزار 600 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جو آج کل 1 ہزار مکعب میٹر کے لگ بھگ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سن 2025ء تک ہر انسان کیلئے اوسطاً دستیاب پانی 800 مکعب میٹر رہ جائے گا۔
حکومتِ پاکستان کو مزید آبی ذخائر بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ سن 1976ء کے بعد سے پاکستان میں پانی کا کوئی اہم ذخیرہ تعمیر نہیں کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے آبی ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
زیادہ پانی پینے کی عادت
ڈاکٹرز کی آراء وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوجاتی ہیں۔ آج کل تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہر روز 8 گلاس یا 2 لٹر پانی ضرور پینا چاہئے تاہم طبی ماہرین کی یہ رائے بننے میں صدیاں لگ گئیں۔
انیسویں صدی کے آغاز تک یہ ایک معیوب بات سمجھی جاتی تھی کہ لوگ زیادہ پانی پئیں۔ بعض اونچے طبقات تو زیادہ پانی پینے کو توہین آمیز بھی سمجھتے تھے۔ امیر لوگ سوچتے تھے کہ پانی سے اپنا پیٹ مفلس اور غریب لوگ بھرتے ہیں۔
زیادہ پانی پینے کو آج کل فیشن سمجھا جارہا ہے۔ امریکا میں بوتل بند پانی کی طلب سافٹ ڈرنک سے زیادہ ہے۔مملکتِ خداداد پاکستان اور بھارت میں بھی یہ چلن عام ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ پانی پینے سے صحت بہتر، وزن کم اور جلد خوبصورت ہوجاتی ہے۔
زیرِ زمین پانی کا بکثرت استعمال
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پانی پینے، زراعت اور دیگر اہم امور کی انجام دہی کیلئے زیرِ زمین پانی سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ زیرِ زمین سطحِ آب تیزی سے کم ہورہی ہے جبکہ پاکستان دنیا کا وہ چوتھا بڑا ملک ہے جو زیرِ زمین پانی استعمال کرتا ہے۔
ملک بھر میں 80 فیصد پینے کا پانی زمین سے حاصل کیا جاتا ہے۔ زراعت کیلئے ملک بھر کے 12 لاکھ ٹیوب ویل پانی زمین سے ہی نکالتے ہیں۔ ہر سال بے تحاشا پانی کے استعمال کے باعث زیرِ زمین پانی 1 میٹر نیچے چلا جاتا ہے۔
سیوریج ملا پانی اور پاکستان
تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے کیونکہ پاکستان میں صفائی ستھرائی کا نظام درست نہیں ہے جسے بہتر کرنے کیلئے بے شمار اقدامات کی ضرورت ہے۔
تقریباً 92 فیصد سیوریج کا پانی براہِ راست ندی نالوں، نہروں، دریاؤں اور سمندر میں شامل ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 5 کروڑ پاکستانی شہری سنکھیا کے زہریلے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ہر سال 52 ہزار بچے گندے پانی سے پیدا ہونے والے امراض مثلاً اسہال، ہیضہ اور پیچش سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جی ڈی پی کا ڈیڑھ فیصد ہسپتالوں میں ایسی ہی بیماریوں کے علاج پر خرچ ہوجاتا ہے۔
خشک سالی کا خطرہ اور تدارک کیلئے تجاویز
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی تغیرات کے باعث پاکستان خشک سالی کا شکار ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سن 2025ء تک پاکستان خشک سالی کا شکار ہوسکتا ہے جس سے تکلیف دہ مسائل جنم لیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ زیرِ زمین پانی کے استعمال کو مشروط اور محدود کرے۔
مشروط و محدود استعمال کیلئے زیرِ زمین پانی سے متعلق قومی پالیسی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنائے جائیں۔
ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے مسلسل ضیاع کو روکنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ ان تمام اقدامات پر سنجیدگی سے عملدرآمد سے ملک بھر میں آبی مسائل پر قابو پا کر موجودہ اور آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔