پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں آج ماؤں کا عالمی دن منایا جارہا ہے جبکہ معاشی بحران کے باعث دنیا بھر میں لاکھوں بے سہارا خواتین کی تعداد بڑھ کر کروڑوں تک جا پہنچی ہے۔
ماؤں کا عالمی دن منانے کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے جو ہم پر یہ واضح کرتی ہے کہ مائیں کسی بھی خاندان کی عمارت کی بنیاد رکھنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ ماؤں کے عالمی دن کی تاریخ سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ایک انسان کیلئے ماں کی حقیقی اہمیت کیا ہے۔
دنیا کا سب سے پہلا رشتہ
اسلام کے نزدیک سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا ہے، کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس ہستی کو پیدا کیا وہ حضرت حوا علیہا السلام تھیں لیکن وہی حضرت حوا علیہا السلام آگے چل کر تمام عالمِ انسانیت کی ماں بنیں جو آج بھی انسان کیلئے سب سے پہلا رشتہ ہے۔
بچہ جب اِس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے اسے جو ہستی نظر آتی ہے، وہ اس کی ماں ہوتی ہے۔ جب اسے ٹھنڈ لگتی ہے تو ماں ہی اسے آغوش کی گرمی سے روشناس کراتی ہے اور جب وہ گرمی سے بے حال ہوتا ہے تو یہی ماں اسے راحت پہنچانے کے لیے ہوادار جگہ لے جاتی ہے۔
یہ بچہ اپنی ہر ضرورت کیلئے ماں کی طرف دیکھتا ہے اور ماں اس کی ہر ضرورت پوری کرتی ہے۔ غور کیا جائے تو بچے کے دنیا میں آنے سے پہلے سے ہی ماں اس کی دیکھ بھال میں جت جاتی ہے۔ 9 ماہ تک دنیا کی ہر ماں اپنی کوکھ میں اپنے بچوں کو پالتی ہے۔
ماؤں کے عالمی دن کی تاریخ
ماؤں کے عالمی دن کا اقوامِ متحدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ دن پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مختلف اوقات میں منایا جاتا ہے جس کے پیچھے ایک پوری تاریخ موجود ہے۔
عالمی دن کے طور پر ماؤں کے دن کی کوئی متفقہ تاریخ دستیاب نہیں بلکہ ہر سال مئی کے دوسرے ہفتے میں اتوار کے روز پاکستان سمیت مختلف ممالک یہ دن مناتے ہیں جبکہ کچھ ممالک یہ دن مارچ، اکتوبر، نومبر یا جنوری میں مناتے ہیں جس کا مقصد ماؤں کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔
جدید مدرز ڈے کی تاریخ کے ڈانڈیے امریکا سے جا ملتے ہیں جس کی تحریک کا سہرا اینا جاروس کے سر جاتا ہے جس نے 20ویں صدی عیسوی میں امریکا کو احساس دلایا کہ ماں ایک انمول رشتہ ہے جسے خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے قومی دن منانے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب امریکا سمیت متعدد ممالک میں مدرز ڈے کو کمرشلائز کردیا گیا یعنی ماؤں کیلئے تحفے تحائف اور مبارکباد کے پیغامات کو تجارتی بنیادوں پر استوار کر لیا گیا جس پر شدید تنقید ہوئی۔ خود یہ دن منانے کی تحریک شروع کرنے والی اینا جاروس نے اس کی مذمت کی۔
اینا جاروس نے کہا کہ مدرز ڈے منانے کا مقصد تجارتی اور کمرشل ترقی نہیں بلکہ ماؤں کے ان کے بچوں سے رشتے کو اجاگر کرنا اور اولڈ ایج ہومز میں پڑی ہوئی ماؤں سے محبت کے جذبات کو حیاتِ نو عطا کرنا ہے۔ تجارتی مقاصد کا حصول اس میں شامل نہیں کیاجاسکتا۔
عالمی دن منانے کا مقصد
بلا شبہ ماں کا رشتہ انسان کے لیے بے حد اہم ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ماں سے انمول رشتہ کوئی نہیں ہوسکتا، لیکن یہ دن منانے کے بعض مخالفین سوال کرتے ہیں کہ عالمی دن منا کر اس رشتے کی اہمیت دوسروں کو بتانے اور نمائش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر مثبت سوچ کے ساتھ یہ دن منانے کی اہمیت کو سمجھا جائے تو اس کی تاریخ مغرب سے شروع ہوئی جہاں ماؤں کو اولڈ ایج ہومز میں ڈال کر ان سے چھٹکارہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ جب وہاں یہ دن منایا جاتا ہے تو ماؤں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکلنے والی اولاد پیچھے مڑ کر دیکھنے لگتی ہے۔
دوسری جانب آپ مشرق کی طرف نظر ڈالیے تو یہاں بھی ماؤں سے اولاد کے رشتے کی صورتحال زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ اولڈ ایج ہومز یہاں بھی بن رہے ہیں اور ماں کو وہ زبرست مقام بالکل نہیں دیاجاتا جس کا اسلام نے ان سے وعدہ کیا ہے۔
اسلام اور ماں کا رشتہ
حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا: الجنت تحت اقدام الامہات۔ یعنی جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ جب حضور ﷺ سے یہ پوچھا گیا کہ ہمارے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ جواب ملا تمہاری ماں۔ دوسری بار اور تیسری بار بھی یہی جواب ملا کہ تمہاری ماں۔
جب یہی سوال چوتھی بار دہرایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا باپ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کو اسلام جو مقام عطا کرتا ہے، وہ دنیا کی کسی تہذیب میں آج تک نہیں دیا گیا اور زمانہ جاہلیت میں ماؤں کے ساتھ جو برا سلوک ہوتا تھا، اس کا خاتمہ کردیا گیا۔
ماں کے بارے میں اقوال
ماں کے بارے میں دنیا کی بے شمار شخصیات نے بڑی اہم باتیں کہی ہیں جن میں سے چند ایک کو اہم سمجھتے ہوئے ہم یہاں شامل کر رہے ہیں۔ مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے کہا کہ تم ہمیشہ اِس بات سے ڈرنا کہ تمہاری ماں تمہارے لیے نفرت سے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے۔
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا کہ سنگدل سے سنگدل شخص کو بھی ماں کی پر نم آنکھیں موم بنا سکتی ہیں۔ شیکسپیئر نے کہا کہ بچہ جہاں رہ سکے وہ سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہی ہوسکتی ہے۔ حکیم لقمان نے کہا کہ مجھے ماں سے جدا کر دیا جائے تو یہ بات مجھے پاگل کردے گی۔
عالمی دن کا حقیقی پیغام
ماؤں کا عالمی دن منانا چاہئے یا نہیں، اس سے قطعِ نظر ہمیں اس دن کے پیغام کو سمجھنا ہوگا۔ اس وقت ہماری ماں سب سے طاقتور ہوتی ہے جب ہم اس کی آغوش میں ہوتے ہیں لیکن وہ سب سے کمزور اس وقت ہوتی ہے جب اسے ہمارے سہارے کی ضرورت پیش آجائے۔
عالمی مدرز ڈے کے موقعے پر ہمیں اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اس بات پر ضرور سوچ بچار کرنی چاہئے کہ دنیا کی تقریباً ہر بے سہارا اور بوڑھی خاتون کسی نہ کسی کی ماں ہوتی ہے۔ ہر ماں کو اپنی ماں سمجھتے ہوئے اس کے جذبات کی قدر کرنی چاہئے اور جسے مدد کی ضرورت ہو، اس کا سہارا بنیے۔