پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تحفظِ خوراک کا عالمی دن منایا جارہا ہے جبکہ فصلوں کو کیڑے مکوڑوں سے بچانے اور زمینی ماحول کو انسانی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کیلئے کیمیائی طریقوں سے جدید دور میں درختوں، پودوں اور جانوروں کو لاحق خطرات آہستہ آہستہ انسانی صحت کے خطرات میں بدلتے جا رہے ہیں جنہیں سمجھنا اور انسانی صحت کے تحفظ کیلئے شعور بیدار کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
آئیے تحفظِ خوراک کے عالمی دن کے موقعے پر ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ انسان کو خوراک سے کون سے خطرات لاحق ہیں؟ ایسے کون سے اقدامات ہیں جو تحفطِ خوراک کیلئے اٹھائے جاسکتے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو نسلِ انسانی کن خطرات سے دوچار ہوسکتی ہے جن کے پیشِ نظر بین الاقوامی ادارے اقوامِ متحدہ نے تحفطِ خوراک کے عالمی دن کے موقعے پر شعوروآگہی بیدار کرنے کا پیغام دیا ہے۔
تحفظِ خوراک کے عالمی دن کی اہمیت
عالمی دن کی اہمیت یہ ہے کہ تحفظِ خوراک دراصل انسانی صحت کے تحفظ کا ضامن ہے اور انسان کیلئے دنیا بھر میں صحت سے بڑھ کر کسی اور چیز کی اتنی اہمیت اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ معیارِ زندگی کا سب سے اہم پیمانہ صحت کو مانا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں اس کی صحت پر سب سے زیادہ توجہ دیتی ہے جس میں سب سے اہم یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ بچہ کیا کھا یا پی رہا ہے۔
اگر بچے کو ماں کے دودھ کی بجائے گائے یا بھینس کا جراثیم سے بھرپور دودھ دیا جائے تو کچھ ہی عرصے میں اس کی صحت خراب ہونے لگتی ہے اور وہ بیمار پڑ جاتا ہے جبکہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بیماری زندگی کی کمزوری کی علامت ہے۔
رواں برس عالمی دن کا موضوع
رواں برس تحفظِ خوراک کے عالمی دن کا موضوع تحفظِ خوراک سب کیلئے رکھا گیا ہے جس کے تحت دنیا بھر میں شعوروآگہی کو فروغ دینے کی مہم چلائی جا رہی ہے جس میں مختلف ممالک کی فیصلہ ساز شخصیتوں، سرکاری و نجی اداروں، معاشروں اور عوام الناس کو غور وفکر اور عمل کی دعوت دی جارہی ہے۔
تحفظِ خوراک سب کیلئے سے مراد یہ ہے کہ معاشرے کے ہر رکن اوردنیا کے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کرے۔ لوگوں میں شعور بیدار کیاجائے کہ وہ کون سی خوراک ہے جسے کھا کر ان کی صحت متاثر نہیں ہوگی اور وہ طویل اور خوشگوار زندگی جی سکیں گے۔
معیارِ خوراک پر اثر انداز عناصر
خوراک کے معیار پر سب سے زیادہ خوراک تیار کرنے کا طریقہ، ذخیرہ کرنے اور رکھنے کے معیارات اور استعمال کرنے کی صورتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔صاف پانی، زراعت کے دوران اور لائیو اسٹاک (مویشی وغیرہ) کی دیکھ بھال میں اچھے طریقہ کار کا استعمال ضروری ہے۔
زمین پر اگنے والی فصلوں ، پھلوں اور سبزیوں سے لے کر فیکٹریوں میں تیار ہونے والے کھانے پینے کے سازو سامان تک خوراک کے تحفظ کے معیارات کو سمجھنا اور ان پر عمل ازحد ضروری ہے تاکہ عوام الناس تک جراثیم سے محفوظ اور بیماریوں سےپاک کھانا پہنچایا جاسکے۔
کورونا وائرس اور تحفظِ خوراک
کورونا وائرس ایک عالمی وباء ہے جس سے بچاؤ کیلئے سماجی فاصلہ، جسم کو صاف ستھرا رکھنا اور خوراک کا تحفظ ایک خاص اہمیت و افادیت کا حامل ہے کیونکہ یہ وائرس ایسے لوگوں کو بھی اپنا شکار بنا رہا ہے جو سماجی فاصلےاور ہاتھ دھونے کا سختی سے اہتمام کرتے ہیں، اس کے باوجود خوراک یا سانس کے ذریعے وائرس ان کے جسم میں چلاجاتا ہے۔
دنیا بھر میں لاکھوں افراد کورونا وائرس کا شکار ہوچکےہیں جبکہ ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن چکے اور مزید ہزاروں ہر گزرتے روز کے ساتھ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ایسے میں تحفظِ خوراک کے عالمی دن کی اہمیت دوگنا ہوجاتی ہے کیونکہ تحفطِ خوراک کو کورونا وائرس سے نجات کااہم راستہ سمجھا جاتا ہے۔
عالمی دن کے مقاصد
صاف ستھری اور محفوظ خوراک معاشی تحفظ اور خوشحالی کی ضامن ہے جس سے زراعت، مارکیٹس، سیاحت اور تعمیر و ترقی کے شعبوں میں بھرپور مدد ملتی ہے۔
تحفظِ خوراک میں بھوک سے تحفظ بھی شامل ہے جس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو محفوظ، غذائیت سے بھرپور اور مناسب خوراک سال بھر مہیا کی جائے۔ تحفظِ خوراک کے عالمی دن کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو ان تمام پہلوؤں کی آگہی دی جائے۔
عالمی دن کا اہم مقصد عالمی برادری کو تحفظِ خوراک پر آمادہ کرنا ہے۔عالمی برادری کو چاہئے کہ خوراک کی تیاری سے لے کر استعمال تک تحفظِ خوراک کے ہر پہلو کا جائزہ لیتے ہوئے اسے بہتر سے بہتر بنائے۔
دنیا بھر میں 1 اعشاریہ 6 ٹریلین ڈالر کا کھانا برآمد کیا جاتا ہے یعنی یہ کھانا ایک ملک میں تیار ہو کر دوسرے ملک کے اداروں اور عوام تک پہنچایاجاتا ہے جس کے تحفظ میں بین الاقوامی تعاون کو بھی عمل دخل حاصل ہے۔
اعدادوشمار
سالہا سال بھوک اور افلاس میں کمی ہوتے دیکھ کر عالمی برادری شاید اپنے فرائض سے غافل ہو گئی جس کے بعد سن 2015ء آیا جس کے بعد بھوک اور افلاس میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ سن 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر کے 82 کروڑ 10لاکھ افراد بھوک اور فاقہ کشی کا شکار ہوئے۔
اقوامِ متحدہ کاکہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی اور بھوک اور افلاس میں اضافہ جاری رہا تو سن 2030ء کیلئے بھوک اور افلاس کی صفر سطح کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے، وہ حاصل نہیں کیاجاسکے گا۔ دوسری جانب بدخوراکی کی وجہ سے دنیا بھر میں موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے یعنی ایک طرف لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور دوسری طرف لوگ حد سے زیادہ کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔
افریقہ تحفظِ خوراک کے لحاظ سے دنیا کا غیر محفوظ ترین خطہ مانا جاتا ہے جہاں 20 فیصد لوگ غذا کی کمی کا شکار ہیں اور لاطینی امریکا سمیت دیگر علاقوں میں بھوک اور افلاس میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ مغربی ایشیاء میں 2010ء سے اب تک غذائی عدم تحفظ میں تیزی دیکھی جارہی ہے جہاں 12 فیصد لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔
ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
جو لوگ خوراک سے محروم ہیں، انہیں کھانا کھلانا ہم سب کا فرض ہے۔ خوراک کا معیار برقرار رکھنے کیلئے نوعِ انسانی کو کاشتکاری سے لے کر فیکٹریوں میں تیار ہونے والی خوراک تک اور سبزی فروش سے لے کر بڑے کاروباریوں تک ہر جگہ تحفظِ خوراک کے عالمی معیارات پر عمل کرنا ہوگا۔
صاف پانی، ملاوٹ سے پاک کھانے پینے کی اشیاء اور دودھ درست انسانی نشوونما اور صحت کیلئے ضروری ہیں تاکہ عالمِ انسانیت کورونا وائرس جیسی عالمی وباء اور دیگر تمام بیماریوں سے محفوظ اور صحت مند رہ سکے۔