جنوری میں شرح سود میں مزید اضافہ متوقع ہے، میاں زاہد حسین

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نوے ارب ڈالرکی درآمدات کرنے والی معیشت کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی،میاں زاہد حسین
نوے ارب ڈالرکی درآمدات کرنے والی معیشت کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی،میاں زاہد حسین

کراچی: نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ مرکزی بینک نے پچیس دن میں شرح سود میں دوبارہ اضافہ کرتے ہوئے اسے ایک فیصد بڑھا کر 9.75 فیصد تک پہنچا دیا ہے تاکہ مہنگائی اورکرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے پرقابو پایا جاسکے اورادائیگیوں کا توازن بہتر بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ شرح سود میں اضافہ کا ایک مقصد بڑھتی ہوئی درآمدات پر قابو پانا بھی ہے جوحاصل کرلیا گیا تو روپیہ کسی حد تک سنبھل جائے گا۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی منڈی میں کروڈ آئل کی گرتی قیمتوں کے پیش نظر پاکستان میں شرح سود میں اضافہ نہ کیا جاتا تو صنعت اور تجارت کے لیے بہتر ہوتا، شرح سود میں اضافہ سے اقتصادی سرگرمیوں کو دھچکہ لگے گا اورمعیشت سکڑنے کا عمل تیزہوجائے گا۔

روزگار میں بھی کمی واقع ہو گی۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ شرح سود میں اضافہ کے باوجود مہنگائی کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھے گی جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کم نہیں ہوگا بلکہ اسٹیٹ بینک کے اندازوں سے زیادہ ہوجائے گا حکومت کو مذید قرضے بھی لینا ہونگے۔

جبکہ سابقہ اور نئے قرضوں پر سود بھی نئی شرح سے دینا ہوگا۔ مرکزی بینک کی جانب سے منی بجٹ کے بعد جنوری میں ایک بار پھر شرح سود میں اضافہ کا امکان موجود ہے۔

بجلی، پٹرولیم مصنوعات،گھی، آٹے، دودھ اوردیگر اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے مہنگائی مذید بڑھے گی جبکہ گھروں کے کرائے بھی بڑھ رہے ہیں جس سے کرائے پر رہنے والوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔

مرکزی بینک کا خیال ہے کہ 2022 کے آخری چھ ماہ میں جاری حسابات کا خسارہ، تجارتی خسارہ اورمہنگائی کم ہوجائے گی جوایک خوش فہمی بھی ہوسکتی ہے۔

میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ ملکی معیشت کی حالت ایسی نہیں ہے کہ برآمدات اورترسیلات میں اضافہ سے اسے بہتربنایا جاسکے۔ اس کے لئے حکومت کو ترقیاتی منصوبوں میں کئی سوارب روپے کی کٹوتی کرنا ہوگی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں تاجروں کے تحفظات فوری طور پر دور کئے جائیں، ناصر حیات مگوں

اپنے اخراجات بھی کم کرنے ہونگے جوحکومت کے لئے ایک مشکل آپشن ہے۔ ان دونوں آپشنز پرعمل ہوبھی گیا تواسے بین الاقوامی منڈی سے اربوں ڈالر کے قرضے لینا ہونگے تاکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جاسکے۔

Related Posts