صارفین اپنے زیادہ آنے والے بجلی کے بلوں پر سیخ پا ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث شدید مایوسی کا شکار ہیں، کیونکہ بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے حالیہ اضافے نے عوامی غم و غصے اور احتجاج کو جنم دیا ہے۔بجلی کے بل میں حالیہ اضافہ ملک کے اب تک کے سب سے بڑے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز اور ان پر حکومت کی جانب سے وصول کیے جانے والے مختلف ٹیکسوں کا نتیجہ ہے۔ اس لیے بڑھتے ہوئے بلوں کے خلاف ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پر نکلتے دیکھنا حیرانی کا باعث نہیں ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے پر مالی بوجھ بڑھا دیا ہے۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشنز نے نیشنل پاور ریگولیٹر سے اضافی فیول اخراجات اور پچھلے مہینوں میں استعمال ہونے والی بجلی کے لیے سہ ماہی پرائس ایڈجسٹمنٹ فیس وصول کرنے کی درخواست کی ہے۔ان دونوں عنوانات کے تحت صارفین پر 200 بلین روپے کی مشترکہ رقم کا ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ یہ چارجز آنے والے مہینوں میں صارفین کے بلوں پر ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے اگر اس کی منظوری دے دی گئی۔
لیکن یہ سب کچھ نہیں ہے۔ روپے کی مسلسل قدر میں کمی کے پیش نظر، آنے والے مہینوں میں بجلی کی پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ ہونے کا امکان ہے، جس سے مستقبل قریب میں صارفین کے بجلی کے بلوں میں اس طرح کی متعدد ”ایڈجسٹمنٹس” کو شامل کرنے کی ضرورت پڑے گی، ملک میں بجلی مہنگی ہونے کی بنیادی وجہ کیپسٹی چارجز کا نفاذ ہے جو کہ ملک کی بجلی کی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے اضافی فیسیں ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور ملک میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کیپسٹی چارجز کو ضروری اقدام قرار دیا ہے۔تاہم، بہت سے لوگوں نے اس پالیسی کی منطق اور انصاف پر سوال اٹھائے ہیں، خاص طور پر جب ملک کو اب بھی مسلسل لوڈشیڈنگ اور بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔بڑے بڑے بلوں نے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے بے پناہ مشکلات کھڑی کردی ہیں جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور کرپشن سے نبرد آزما ہیں۔
بہت سے لوگوں نے اپنے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ان کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے۔ کچھ نے تو عدم ادائیگی کی تحریک شروع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے تاکہ ان کے بجلی کے کنکشن منقطع کرنے کی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کی جاسکے۔ بری خبر یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی قیمتیں برقرار رہیں گی۔ بین الاقوامی منڈی میں ایندھن کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان میں بڑھیں گی، عام عوام اور ان کی ضروریات ہمیشہ ترجیحی فہرست میں بہت کم ہوتی ہیں۔حکومت کو اس حوالے سے ٹھوس اور مثبت اقدامات کرنے ہوں گے۔