Friday, March 29, 2024

گلشنِ اقبال دھماکے پربھارتی پروپیگنڈہ اور سوشل میڈیا صارفین کا منہ توڑ جواب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بھارتی میڈیا نے گزشتہ روز ہونے والے دھماکے کو نیا رنگ دینے کی کوشش کی تاہم سوشل میڈیا صارفین نے گزشتہ روز سے ہی ان کا پراپیگنڈا بے نقاب کردیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مودی حکومت کا تو پاکستان سے تعصب سمجھ میں آتا ہے لیکن بھارتی میڈیا آخر کیوں حقائق کی درست ترجمانی سے قاصر نظر آتا ہے؟ آئیے کراچی میں ہونے والے دھماکے کے حقائق اور میڈیا پراپیگنڈے کا تجزیہ کرتے ہیں۔

گلشنِ اقبال دھماکہ اور حقائق 

گزشتہ روز کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال میں مسکن چورنگی کے نزدیک ایک دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق جبکہ 30 کے قریب زخمی ہوئے۔

یہاں واقعے پر حقائق سمجھنے سے قبل ہی ایس ایس جی سی کا بیان سامنے آگیا کہ دھماکے کا گیس لیکیج سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بعد میں آنے والی بم ڈسپوزل اسکواڈ کی رپورٹ سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گیس لیکیج کے باعث ہی بم دھماکہ ہوا کیونکہ وہ 4 منزلہ عمارت جہاں دھماکہ ہوا تھا، وہاں سے کسی بم یا آتش گیر مادے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ 

بھارتی پراپیگنڈہ

پاکستان کی طرح بھارت میں بھی گلشنِ اقبال میں ہونے والے دھماکے کی خبر چلی لیکن اس کا انداز یہ تھا کہ اسے پاک فوج کے سربراہ یعنی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سندھ پولیس میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے پائی جانے والی تشویش سے جوڑنے کی بھونڈی کوشش کی گئی۔

وطنِ عزیز کی طرح بھارت میں بھی پہلے تو خبر کے حقائق جوں کے توں بیان کیے گئے لیکن بعد ازاں کہا گیا کہ دھماکہ اُس وقت ہوا جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان افواہوں پر تحقیقات کا حکم دیا کہ آئی جی سندھ کو اغواء کیا گیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کی خبر دیتے ہوئے بھارتی میڈیا افواہ کے نام پر آئی جی سندھ کے اغواء کو پاک فوج کے اہلکاروں سے جوڑنے کی کوشش کرتا رہا، اور یہ تاثر دیتا رہا کہ پاک فوج کے ایماء پر ہی ن لیگی رہنما کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا گیا۔

یہاں تک کہا گیا کہ پاک فوج اور سندھ پولیس کے درمیان تضادات اور سول وار یعنی لڑائی یا سرد جنگ موجود ہے۔ گویا پاکستانی شہریوں کو عدم تحفظ کا شکار کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ 

پاکستان کا ردِ عمل 

یہ تماشا اگر بھارتی نیوز چینلز تک محدود رہتا تو عوام سمجھتے کہ بھارت کو ہی گمراہ کیا جارہا ہے لیکن بات اس سے کافی آگے بڑھ گئی جب سوشل میڈیا ویب سائٹ پر بھی بھارتی نیوز چینلز اور صحافیوں نے یہی پراپیگنڈہ مزید پھیلانے کی کوشش کی۔

یہاں پاکستانی صارفین اور صحافی تو حقائق سے خوب واقف تھے، انہوں نے بھارتی میڈیا کے خلاف ایک سوشل میڈیا جنگ چھیڑ دی، جو گزشتہ روز سے شروع ہوئی اور آج بھی سول وار کے ٹاپ ٹرینڈز کے تحت جاری ہے۔

جھوٹی خبریں پھیلانا بھارتی میڈیا کی طرف سے کوئی نئی روایت نہیں ہے۔ گزشتہ روز کی خبر پر بھی جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں جنہیں پاکستانی صارفین نے خوب بے نقاب کیا۔ 

سول وار اِن کراچی کا ٹاپ ٹرینڈ

پاکستان میں سول وار اِن کراچی آج کا ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا صارفین بھارتی پراپیگنڈے کا خوب مذاق اڑا رہے ہیں۔ محسن بنگش نامی سوشل میڈیا صارف نے بھارتی بیانیے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ کراچی میں صورتحال قابوسے باہر ہوچکی ہے لیکن یہاں تصویر کیا پوسٹ کی، وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ 

ایک اور سوشل میڈیا صارف عدنان عامر نے کہا کہ بھارتی میڈیا اور کچھ تصدیق شدہ انفلوئنسرز کراچی میں سول وار کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے بری طرح بے نقاب ہوئے، جھوٹی خبریں پھیلانے سے ان کی اپنی ہی ساکھ تباہ ہوئی۔ 

ریحان طارق نے کہا کہ کراچی کے شہری آج سول وار کے خلاف کھڑے ہیں، براہِ کرم یہ ویڈیو بھارتی میڈیا تک پہنچائیے۔ انہوں نے جو ویڈیو شیئر کی اس میں ایک شخص دو طیاروں پر سوار نظر آتا ہے۔ 

جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصد؟

ایسی خبریں جن میں سچ سے زیادہ جھوٹ شامل ہو، پھیلانے کا مقصد دشمن کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستانی شہری یہ سمجھ لیں کہ آرمی چیف اور سندھ حکومت یا وفاق کے درمیان کوئی ایسے اختلافات موجود ہیں جن کی بنیاد پر کراچی کے شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو خود سوچیے، لوگ کیا کریں گے؟

قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی بھارت پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے۔ بھارتی میڈیا جھوٹی خبریں پھیلا کر پاکستانی عوام کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔

ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

بے بنیاد باتوں پر دھیان دینے کی بجائے حقائق کو مدِ نظر رکھیں۔ اگر آپ کو یہ جاننا ہے کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے تو پاکستانی نیوز چینلز دیکھئے۔ بلاشبہ خبریں پریشان کرتی ہیں لیکن اتنا نہیں کہ ہم حوصلہ ہار کر بیٹھ جائیں۔

شہرِ قائد سمیت ملک کے کسی بھی شہر میں جب خدانخواستہ آگ لگتی ہے یا کوئی دھماکہ ہوتا ہے یا ایسی ہی کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے، رینجرز، لیویز فورس، پولیس اور پاک فوج ہی ہمیں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔

کیا ہم جان کی قربانیاں دینے والی پاک فوج اور پولیس کے کردار پر شک کرسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں، کیونکہ ایسا کرکے ہماری اپنی ہی حفاظت خطرے میں پڑ جائے گی۔

آرمی چیف نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری پر آئی جی سندھ سمیت پولیس کے دیگر اعلیٰ افسران کی تشویش پر تحقیقات کا حکم دیا جس کے بعد ہمیں تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرنا ہوگا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ پولیس کی مرضی کے بغیر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کیسے عمل میں لائی گئی۔

قبل از وقت بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے کا یقین کرنے کی بجائے انہیں اسی طرح جواب دینا ہی بہترین حکمتِ عملی ہے، جیسا کہ سوشل میڈیا صارفین کر رہے ہیں۔