بھارت نے متنازعہ شہریت ایکٹ متعارف کراتے ہوئے اکھنڈ بھارت منصوبے کی سمت ایک اور قدم اٹھایا ہے۔نئی قانون سازی ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو ایک بار پھر قومی دھارے سے نکالنے کی مودی حکومت کے ہندوتوا ایجنڈے کا حصہ ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ مذہبی برادریوں کے تارکین کو اس بنیاد پر شہریت دی جائے گی کہ انھیں اپنے سابقہ ملک میں ’مذہبی مظالم اور تفریق‘ کا سامنا کرنا پڑا یا انھیں مذہبی جبر کا خدشہ لاحق تھا۔ جس کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ہندوستان بنیادی طور پر اب بھی ایک سیکولر ریاست ہے جبکہ مسلمان ہندوستان کی مجموعی آبادی کا پندرہ فیصد بنتے ہیں تاہم ہندوستان کے آئین میں مذہب کی بنیاد پر شہریت فراہم کرنے کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔
یہ بل ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے بھی خلاف ہے جو مساوات کا حق دیتا ہے اور مذہب پر مبنی کسی بھی امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔ اس سے خاص طور پر بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ہندوستان ہجرت کرنے کی ترغیب ملے گی جو مقامی ثقافت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے جبکہ مجوزہ اقدام سے مسلم آبادی کو مزید اقلیت پیچھے دھکیل دیا جائیگا۔
بل کی منظوری کیخلاف بھارت کی متعدد ریاستوں میں پرتشدد پھوٹ پڑے ہیں، مظاہرین کا کہنا ہے کہ مجوزہ بل بھارت میں بسنے والی قومتیوں کو تقسیم کرنے کی سازش ہے،آسام، میگھالیہ اور منی پور کے علاوہ دوسری شمال مشرقی ریاستوں میں بھی شہریت کے بل کی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔
مخالفت کرنے والی بیشتر ریاستیں بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد پر واقع ہیں۔مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ نئے قانون سے بنگلہ دیش کے ہندوؤں اور بودھ باشندوں کو یہاں آ کر بسنے کی ترغیب ملے گی اور وہ نسلی طور پر رفتہ رفتہ اقلیت میں بدل جائیں گے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس بل میں سری لنکا کو شامل نہیں کیا گیا جہاں تامل اقلیتوں کو ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے روہنگیا مسلم تارکین وطن کی آمد کی بھی سختی سے مخالفت کی ہے اور دھمکی دی ہے کہ نسلی امتیازکا سامنا کرنے کے باوجود انہیں وطن واپس میانمار بھیج دیا جائے گا۔
بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی دن کے موقع پر متنازعہ بل پیش کرکے عالمی برادر ی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کھلا چیلنج دیا گیا ہے۔
بھارت نے پڑوسی ممالک سے آنیوالے ہندو تارکین وطن کو شہریت دینے کیلئے 12سال قیام کی شرط ہے تاہم اس بل کی منظوری کے بعد بھارت ہجرت کرنے والے تارکین وطن کو شہریت دینے کا عمل تیز ہوجائیگا جس کی وجہ سے بھارت میں موجود مسلمانوں میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔ ریاست کو کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے تمام مذاہب کے ساتھ یکساں برتائو کرنا چاہیے اور عالمی قوانین اور اخلاقیات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔