بھارت نے سکھ یاتریوں کو پاکستان میں ان کے مقدس مقام پرجانے سے روکتے ہوئے واہگہ بارڈر عبور کرنے سے روک دیا ہے۔ ان یاتریوں کو اتوار کے روز ننکانہ صاحب کے گوردوارہ میں اپنے مذہبی تہوار میں شرکت کرنا تھی۔
ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اوروزیر اعظم نریندر مودی کے لاہور دورے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت معطل ہے۔
ایک طرف جہاں حکومت پاکستان کی جانب سے بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے اقدامات کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے وہیں بھارت کی جانب سے سکھ یاتریوں پر پابندیوں نے اقوام عالم کے سامنے بھارت کا دوغلا چہرہ بے نقاب کردیا ۔
سکھ یاتریوں پر پابندی
ہندوستان کی مرکزی وزارت داخلہ نے پاکستان میں سیکورٹی اور کورونا کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے 600 سکھ یاتریوں کو پاکستان کے گوردواروں میں جانے سے روک دیا ہے، حکومت کی طرف سے فیصلہ سکھ کمیونٹی کی سب سے اعلیٰ تنظیم شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی کو پہنچایا گیا جس نے ساکا ننکانہ صاحب کی 100 ویں برسی میں شرکت کے لئے اس دورے کا اہتمام کیا تھا۔
دورہ کرنیوالا جتھا 6سو یاتریوں پر مشتمل تھا جبکہ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ ان یاتریوں کی زندگی کو پاکستان میں شدید خطرہ ہے، اس گروپ کو ایک ہفتہ کے عرصہ میں پورے پاکستان میں پانچ گرودواروں کا دورہ کرنا تھاجس کو جواز بناتے ہوئے ہندوستانی وزارت داخلہ نے دورہ پاکستان کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔
غیر معمولی فیصلہ
ماضی پر نظر ڈالی جائے تو بھارتی حکومت کا حالیہ اقدام ایک بدترین مثال ہے کیونکہ سکھوں کے جتھوں کو ماضی میں کبھی بھی پاکستان جانے سے نہیں روکا گیا ،ممبئی حملوں یا پلوامہ حملے کے دوران بھی دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات انتہائی خراب تھے لیکن سکھ یاتری معمول کے مطابق پاکستان میں اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے تواتر کیساتھ پاکستان آتے رہے ہیں۔
بھارتی حکومت کی طرف سے سکھ یاتریوں کو روکنا انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ مذہبی تہواروں اور تقریبات میں آزادانہ طور پر حصہ لینا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے ایسا اقدام اٹھایا ہو۔ پچھلے سال جون میں ہندوستان نے سکھ یاتریوں کو کرتار پور میں واقع گردوارہ دربار صاحب میں شرکت سے روکا تھا۔
خالصتان کی تحریک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی
بھارت میں متنازعہ زرعی قوانین کیخلاف کسانوں کا احتجاج جاری ہے، بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکھ کسانوں کی جانب سے جاری احتجاج کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے تاہم بھارتی حکومت معاملات کو افہام و تفہیم سے سلجھانے کے بجائے طاقت کے استعمال سے احتجاج کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔
مودی حکومت کے متنازعہ اقدامات نے بھارت کے سب سے بڑی جمہوریت کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے اور آج بھارت میں اپنے بنیادی حقوق کیلئے احتجاج کرنیوالے کسانوں کو خالصتان کی تحریک سے جوڑ کر معاملات کا رخ موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اور سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے سے روکنے کی ایک بڑی وجہ خالصتان تحریک بھی ہے۔
کرتار پور راہداری اور بین المذاہب ہم آہنگی
پاکستان نے سال 2019ء میں کرتاپور راہداری کا افتتاح کرکے پوری دنیا میں ایک مثبت پیغام پہنچایا تھا جبکہ 2020 میں ہندوستانی حکام نےکورونا خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے سے روک دیا تھا۔
پاکستان نے کرتار پور راہداری کے افتتاح کے موقع پر بھارتی زائرین کو شرکت کی دعوت دیکر جہاں دوستی ،امن بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام دیا وہیں بھارتی حکومت مسلسل مذہبی کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اور کسانوں اور زائرین کو روک کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت بھی پاکستان کے مثبت اقدامات کا خوش دلی سے خیر مقدم کررہے اور آگے بڑھ کر خطے میں محبت اور امن کیلئے اقدامات اٹھائے۔