بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں ٹارگٹ کلنگ بڑھ رہی ہے جس کی وجہ ذاتی دشمنی، سیاست یا پھر تعصب بھی ہوسکتی ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے ملک بھر میں جاری سیاسی رسہ کشی، نسلی تعصب اور تقسیم در تقسیم کے عمل نے باہمی نفرت اور تعصب کو بھی ہوا دی تاہم بنیادی طور پر ملک کی اکثریت اسلام کی پیروکار ہے جو امن و سلامتی کا درس دیتا ہے۔

پھر بھی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی سے پاکستان کو بے پناہ جانی ومالی نقصانات اٹھانے پڑے۔ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کو بھی جرائم میں اضافے سے نقصان پہنچا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ 2020 میں 1300 سے زائد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے۔

گزشتہ برس یعنی 2022 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو اضافہ ہوا، وہ دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ رہا۔ 2021 میں 292 جبکہ 2022 میں 643افراد دہشت گردی کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئے۔

جی ٹی آئی یعنی گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس کا کہنا ہے کہ اگر 2017 کے بعد سے اب تک کا جائزہ لیں تو جنوبی ایشیا میں پاکستان افغانستان کو بھی عبور کرکے سب سے زیادہ دہشت گردی کا سامنا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔

بالخصوص ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گردوں نے کوئٹہ اور پشاور جیسے شہروں کو نشانہ بنایا ہے جہاں آئے روز بم دھماکوں، شہادتوں اور دیگر جانی و مالی نقصانات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

ٹارگٹ کلنگ کے باعث عوام میں عدم تحفظ اور خوف کے احساسات جنم لیتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری تیزی سے گرنے لگتی ہے اور عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو جو نقصان پہنچتا ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔

جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں حالات ٹھیک نہیں ہیں، ہمارے ملک کے شہریوں کو وہاں نہیں جانا چاہئے تو چاہے وہ جس ملک سے بھی تعلق رکھتا ہو، پاکستان کے ہر شہری کو دل سے رنج و غم محسوس ہوتا ہے۔

گزشتہ روز بھی سابق ایس پی فرحت عباس کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ لاہور میں پیش آیا۔ ایک موٹر سائیکل سوار مسلح شخص جس نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا، آیا اور ایس پی فرحت عباس کو شہید کرکے بھاگ نکلا۔

شہادت کا محرک کچھ بھی ہو، عام شہری کیلئے یہ انتہائی فکر کا مقام ہے کہ جب پولیس اپنے سابق افسران کی زندگیوں کو ہی محفوظ نہیں رکھ سکتی، وہ ان کی زندگیوں کا تحفظ کیسے کرے گی؟

موجودہ دور کی سائنسی ترقی کے تحت ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کو جدید آلات اور اسلحے سے لیس کیا جائے تاکہ وہ مختلف گنجان آباد اور کسی قدر سنسان جگہوں پر بھی عوام کے تحفظ کا خیال رکھ سکے۔