پاکستان تحریک انصاف بانی عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ 14 دسمبر سے “سول نافرمانی” کی تحریک شروع کریں گے۔ یہ انتباہ ان کی جماعت کی “کرو یا مرو” احتجاجی حکمت عملی کی ناکامی کے بعد سامنے آیا ہے جس کا مقصد خان کی رہائی اور سیاسی مسائل کا حل تھا۔
عمران خان نے واضح کیا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات 14 دسمبر تک پورے نہیں کیے گئے تو پی ٹی آئی اپنی سول نافرمانی کی تحریک آگے بڑھائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت اس تحریک کے ممکنہ نتائج کی ذمہ دار ہوگی، جو پاکستان میں سیاسی بحران کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
سول نافرمانی کیا ہے؟
سول نافرمانی سے مراد یہ ہے کہ کسی مخصوص قانون، مطالبے، یا حکومت کے احکام کی جان بوجھ خلاف ورزی کی جائے، جسے احتجاج کی ایک شکل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ حکمت عملی تاریخ میں جابرانہ قوانین اور سیاسی نظاموں کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہے تاکہ حکومت کی توجہ حاصل کی جا سکے اور محسوس کیے جانے والے ناانصافیوں کو اجاگر کیا جا سکے۔
سول نافرمانی کا تصور مہاتما گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسے افراد کے ذریعے وسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا۔ گاندھی کی ستیہ گرہ (غیرمکروہ مزاحمت) کی فلسفہ بھارت کی آزادی کی جدوجہد میں اہم تھی جبکہ مارٹن لوتھر کنگ نے امریکی شہری حقوق کی تحریک میں نسلی علیحدگی کے خلاف سول نافرمانی کا استعمال کیا۔
سول نافرمانی میں کارکنان مخصوص قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں جنہیں وہ ناانصافی سمجھتے ہیں، مکمل طور پر آگاہ ہوتے ہوئے کہ ان کے اقدامات کے قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔ تاہم سزا قبول کر کے وہ ایک اخلاقی مثال قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو تبدیلی کی تحریک یا حکومت سے رعایتیں حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہو۔
گنڈاپور اس بار بشریٰ بی بی کو لے کر پشاور بھاگ نکلے، انقلاب کا کیا بنا؟ویڈیو
عمران خان جب اپنی سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہیں تو یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کرے گی اور حکومت کو ان کے مطالبات کا جواب دینے پر مجبور کرے گی۔ اس کے نتائج پاکستان کی سیاسی مستقبل کے لیے اہم اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
اگر خان یہ تحریک شروع کرتے ہیں تو وہ اپنے حامیوں کو بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کی ادائیگی روکنے کی ہدایت کریں گے جبکہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں سے بھی اپیل کر سکتے ہیں کہ وہ ملک میں رقوم بھیجنا بند کر دیں۔