اسلام میں روزے کو روحانی و بدنی عبادت کے طور پر بے حد فضیلت اور اہمیت حاصل ہے جبکہ اس کے اخلاقی و طبی فوائد بے شمار ہیں جو عمر کے الگ الگ ادوار میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روزہ داروں پر آشکار ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں خدائے واحد کی رحمتوں، برکتوں اور اجروثواب کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت بھی روزے میں نظر آنے لگتی ہے۔
روزے کو صرف اسلامی عبادت قرار دینا تاریخی اعتبار سے کوئی درست نقطۂ نظر نہیں ہے کیونکہ اسلام کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب و ادیان نے بھی روزے کو ایک عبادت قرار دیا اور اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ اسے اختیار کرکے اس سے اخلاقی، طبی اور نفسیاتی فوائد حاصل کریں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روزے کا تصور اسلام سے پہلے بھی موجود تھا۔
زمانۂ قدیم میں روزے کا تصور
زمانۂ قدیم سے روزہ روحانی طاقت کے حصول کا ذریعہ رہا ہے۔ قدیم زمانے کے لوگ خدائے واحد کے وجود سے لاعلم ضرور تھے، لیکن ان کے ذہن میں کسی نہ کسی ایسی ہستی اور طاقت کا تصور ضرور موجود تھا جو ان کی تقدیر پر دسترس رکھتی تھی اور انہیں صحیح اور غلط کے درمیان تمیز سکھا سکتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ روحانی پاکیزگی کے حصول، گناہوں سے توبہ و استغفار، ایثار و قربانی، کفارۂ گناہ اور طاقت و علم میں اضافے کے لیے روزے کو ایک عبادت کے طور پر استعمال کرتے تھے اور اس عبادت کی ادائیگی کے دوران بدنی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کے روحانی پہلو پر بھی اتنی ہی توجہ دی جاتی تھی۔
ہندو مت اور روزے کا تصور
بے شک ہندو مت میں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ خداؤں کی عبادت کی جاتی ہے۔ ان کے بت بنائے جاتے ہیں اور بتوں کے آگے انسان جھکتا ہے اور اپنی منتیں مرادیں بتوں کے آگے پیش کرکے ان سے اچھائی اور فائدے کی امید کرتا ہے، تاہم اسلام اور ہندو مت میں ایک قدرِ مشترک موجود ہے جو یہ ہے کہ یہ خود کو مذہب نہیں کہتے۔
اسلام کے مطابق یہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے۔قرآن فرماتا ہے: ان الدین عند اللہ الاسلام۔ یعنی بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ یہاں اسلام نے خود کو دین کہتے ہوئے مذہب قرار دئیے جانے سے اجتناب کی راہ اپنائی۔ دوسری جانب ہندو مت کوئی واضح مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔
یہ ایک الگ بات ہے کہ ہندومت اور اسلام دو صریحاً مخالف اور بالکل الٹ راستے ہیں۔ اسلام جس بات سے سختی سے روکتا ہے، ہندو مت میں وہی چیز ان کے مذہب کی جان ہے، تاہم روزے کا تصور ہندو مت میں بھی موجود ہے۔ دیوی اور دیوتاؤں کی پرستش کرنے والوں کو دینِ ہندو مت حکم دیتا ہے کہ ہفتے میں 1، 2 یا 3 بار روزہ رکھیں۔
ایک ہندو جب روزہ رکھتا ہے تو وہ عبادت و ریاضت میں مصروف ہوجاتا ہے جو رات کے وقت گہری ہوجاتی ہے۔ ہندو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ روزہ انہیں روحانی فوائد کے حصول میں مددگار ثابت ہوگا جس کے دوران وہ جسمانی ضروریات سے اجتناب برتتے ہیں۔
جسمانی تکلیف سے گزرنا، بھوک برداشت کرنا اور گناہ کم کرنے کی خاطر خود پر جبر کرنا ہندو مت کے روزے کے اہم اجزاء ہیں۔ ہندو صحیفہ جات کہتے ہیں کہ روزہ انسان کو خدا کے قریب لے جاتا ہے۔ ویدک صحیفہ جات ایکادشی کے روز مکمل روزہ 8 سال سے لے کر 80 سال کے تمام لوگوں کو کھانے اور پانی سے دور کردیتا ہے۔
صحیح النسل بنی اسرائیل (یہود) کا روزہ
یہودی بلا شبہ اسلام دشمنی میں آج سب سے آگے نظر آتے ہیں اور مسلم ممالک فلسطین سے لے کر کشمیر تک مسلم کشی اور مسلمانوں کے قتلِ عام کا ذمہ دار یہود و ہنود کو ٹھہراتے ہیں تاہم حقیقت یہی ہے کہ یہود ہندو مت کے مقابلے میں مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں کیونکہ یہ صحیح النسل بنی اسرائیل سے ہیں جو دنیا کی قدیم ترین قوم ہے۔
اسلام اور عیسائیت کی طرح یہودیت بھی ایک الہامی مذہب ہے جو بت پرستی کی سختی سے مذمت کرتا ہے جبکہ یہودیت میں روزے کا تصور اسلام سے مماثلت رکھتا ہے۔ عبرانی صحیفوں کے مطابق روزہ انسان کو اندرونی اور بیرونی دونوں زاویوں سے ہدایت فراہم کرتا ہے۔ آج بھی جب ایک یہودی روزہ رکھتا ہے تو خدا سے رحمت کی دُعا کرتا ہے۔
جب ایک یہودی انفرادی طور پر کوئی روزہ رکھتا ہے تو اس سے انفرادی گناہ کی مغفرت مطلوب ہوتی ہے جبکہ قوم کے ساتھ مل کر روزہ رکھنے سے وہ من حیث القوم خدا سے مغفرت و رحمت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ دولہا اور دلہن کو ترغیب دی جاتی ہے کہ شادی کے روز روزہ رکھیں جو ان کے تمام گزشتہ گناہوں کا کفارہ ثابت ہوسکتاہے۔
شریعتِ موسوی کا قانون کہتا ہے: موسمِ خزاں کی ابتدا میں مقرر کردہ ماہ کے 10ویں روز اپنی ذات سے پہلو تہی برتو۔ اسرائیلی اور ان کے درمیان بسنے والے غیر ملکی کوئی کام نہ کریں۔
دوسری جانب یہودی ایک اہم دن مناتے ہیں جسے یومِ کبور یا کفارے کا دن کہا جاتا ہے۔ اس روز کا روزہ ماضی کے تمام گناہوں سے استغفار ، ندامت کے اظہار اور مغفرت کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ روزے کا مقصد یہودیت کے نزدیک روحانیت پر ارتکازِ توجہ اور جسمانی سرگرمیاں کم کردینا ہے۔
مسیحیت اور روزے کا تصور
کرسچن قوم خود کو عیسائی کی بجائے مسیحی کہلانا پسند کرتی ہے ۔ حضرت یسوع مسیح علیہ السلام نے اپنے پرانے شاگردوں کو ہدایت کی کہ روزہ رکھیں تو اسے ظاہر نہ کریں کیونکہ یہ منافقوں کا کام ہے جبکہ منافق کسمپرسی ظاہر کرکے پریشان حال نظر آنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔
متی کی آیات 6:16 کے مطابق حضرت یسوع مسیح نے پیروکاروں کو ہدایت کی کہ روزہ رکھنے کے بعد کنگھی کرکے اور چہرے کو صاف ستھرا بنا کر عوام کے درمیان رہیں تاکہ کوئی چہرے سے یہ نہ جان سکے کہ وہ روزے سے ہیں جبکہ خدا تمہاری خفیہ اور ظاہری تمام باتیں جانتا ہے۔ تمہیں اچھی باتوں پر اجروثواب ملے گا۔
آج کا مسیحی روزے کی حالت میں مسلمانوں کی طرح کھانے سے مکمل پرہیز نہیں کرتا۔ بہت سے لوگ روزے کی حالت میں پانی اور جوس پینے اور بعض اوقات مخصوص کھانوں سے ہی پرہیز کرتے نظر آتے ہیں، تاہم جو لوگ مسیحیت کے درست احکامات سمجھتے ہیں وہ کھانے اور پینے سے مکمل اجتناب برتتے ہیں۔
مسیحی گڈ فرائیڈے کا روزہ اس روز کی یاد میں رکھنتے ہیں جب مسیحِ موعود کو تکلیفیں اور ایذا پہنچائی گئی۔ کیتھولک روزے کو روحانی مضبوطی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ پروٹسٹنٹ مسیحی روزے کو نماز کے ساتھ شمار کرتے نظر آتے ہیں۔
اسلام اور روزے کا تصور
روزہ اسلام کے 5 ستونوں میں سے ایک اہم ستون قرار دیا گیا ہے۔ روزہ تمام بالغ مسلمانوں پر فرض ہے جن میں سمجھدار بچے جو بلوغت کے قریب ہوں، مرد اور خواتین سب شامل ہیں۔
قرآنِ پاک روزے کی فرضیت کی سب سے بڑی دلیل فراہم کرتا ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رمضان المبارک میں پورے مہینے کے روزے رکھیں تاہم بیمار اور مسافر افراد کو روزے سے رخصت بھی دی گئی ہے۔ ایسے افراد کو رمضان المبارک کے بعد دیگر مہینوں میں روزے رکھ کر گنتی پوری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزے جیسی عبادت کا مقصد تقویٰ یعنی پرہیز گاری کا حصول ہے۔ دیگر مذاہب روزے کو الگ نظر سے دیکھتے ہیں، تاہم اسلام میں موجود روزے کا تصور مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے زیادہ بہتر اور قابلِ تقلید ہے۔