پی ایس ایل میں اچھا پرفارم کرکے قومی ٹیم میں جگہ بناناچاہتا ہوں، محمد عمرسے خصوصی گفتگو

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Mohammad Omar multan sultans

پاکستان میں کرکٹ کا بے پناہ ٹیلنٹ پایا جاتا ہے اور پاکستان نے ایک دو نہیں بلکہ بے شمار ستارے دنیائے کرکٹ کو دیئے ہیں جن کے فن کی داستانیں زبان زد عام ہیں، ایسا ہی ایک نیا ستارہ محمد عمر پاکستان میں کرکٹ کے افق پر چمکنے کیلئے تیار ہے اور کراچی کے اس نوجوان نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پاکستان سپر لیگ میں جگہ بنائی۔

ایم ایم نیوز نے محمد عمر سے ایک نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال نذر قارئین ہے۔

ایم ایم نیوز:کیا پی ایس ایل کھیلنا کبھی آپ کا خواب تھا ؟
محمد عمر: پی ایس ایل پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کا بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان سپر لیگ کھیلنا ہر کھلاڑی کا خواب ہے اور پی ایس ایل میں جگہ بنانے کیلئے 5 سال سے میں بھرپور محنت کررہا تھا اور اب میری کوشش ہوگی کہ پی ایس ایل میں اچھا پرفارم کرکے قومی کرکٹ ٹیم میں جگہ بناؤں اور اپنے ملک کیلئے خدمات انجام دوں۔

ایم ایم نیوز:کیا آپ کو اندازہ تھا کہ ملتان سلطان آپ کو سلیکٹ کریگا ؟
محمد عمر: نیشنل بینک گراؤنڈ میں خیبر پختونخوا کیخلاف ہمارا میچ چل رہا تھا اور میں نے اس میچ میں اچھی باؤلنگ کی تھی اور جب کھیل کر واپس ہوٹل میں آئے تو میرے ساتھیوں نے بتایا کہ ڈرافٹنگ میں ملتان سلطان نے تمہیں منتخب کرلیا ہے تومیں نے ان سے کہا کہ مذاق مت کرو لیکن جب ٹی وی پر اپنا نام دیکھا تو بہت خوشی ہوئی اور یہ میرے لئے ایک بڑا سرپرائز تھا اور ایسا لگا کہ میرا آدھا خواب پورا ہوگیا ہے۔

ایم ایم نیوز:کرکٹ میں آپ کا مقصد اور اب تک کی کامیابی کیا ہے ؟
محمد عمر: پاکستان میں کرکٹ سب سے زیادہ مقبول ہے اسی لئے میں نے بھی کرکٹ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گھر کی چھت پر کھیلا کرتا تھا، اس کے بعد میں نے انڈر 14 کیلئے ٹرائل دیا اور انڈر16، 17، 18 اور انڈر19 کھیلا۔ پاکستان انڈر18 کی ٹیم میں ہم نے چمپئن شپ جیتی، اب تک ڈومیسٹک میں کافی اچھا پرفارم کیا ہے اور کوشش ہوگی کہ آئندہ بھی بہتر کھیل پیش کرکے قومی ٹیم میں جگہ بناؤں۔

ایم ایم نیوز:تینوں فارمیٹس میں ٹی ٹوئنٹی کو کیسے دیکھتے ہیں ؟
محمد عمر: ٹیسٹ اور ون ڈے کی نسبت ٹی ٹوئنٹی بلکہ مختلف فارمیٹ ہے اور اس میں آپ کو مختصر وقت میں اپنا دل، دماغ اور جسم ایک ساتھ فوری استعمال کرنا ہوتا ہے اور یہاں وہی کامیاب ہوتا ہے جو جذبات کو کنٹرول کرلیتا ہے۔

ایم ایم نیوز:ٹی ٹوئنٹی میں فاسٹ باؤلرز کا کتنا کردار ہے ؟
محمد عمر: ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں فاسٹ باؤلر بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ جب سامنے والی ٹیم تیز کھیل رہی ہو تو فاسٹ باؤلرز یارکرز،سلو بالز اور دیگر چالبازیوں سے حریف کو کنٹرول کرتے ہیں۔میں بچپن سے ٹیپ بال کھیلتا رہا ہوں اس لئے مجھے یارکر اور سلو بال کروانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی ۔

ایم ایم نیوز:آپ پاکستان ون ڈے کپ کے ٹاپ فائیو باؤلر کیسے بنے؟
محمد عمر: پاکستان ون ڈے کپ میں ہم پہلا میچ ہار گئے تھے لیکن ہم نے محنت کی اور ٹورنامنٹ میں اچھا کھیل پیش کیا اور میری کوشش تھی کہ میں ایونٹ کا ٹاپ باؤلر بنوں اور اس کیلئے میں نے بہت محنت بھی کی لیکن ٹاپ فائیو بننے پر بھی مجھے بیحد خوشی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے یہ کامیابی ملی۔

ایم ایم نیوز:اب تک کس کھلاڑی کو آؤٹ کرکے زیادہ خوشی ہوئی ہو؟
محمد عمر: قائد اعظم ٹرافی میں اپنے ڈیبیو میچ میں پہلے ہی اوور میں قومی ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ کو آؤٹ کرنا میرے لئے ناقابل یقین لمحہ تھا اور یہ میرا ڈریم ڈیبیو تھا۔

ایم ایم نیوز: کرکٹ کے آغاز میں آپ کا فیورٹ باؤلر کون تھا ؟
محمد عمر: وقار یونس اور محمد آصف کی باؤلنگ دیکھ کر فاسٹ باؤلنگ کا شوق پیدا ہوا اور میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی فاسٹ باؤلر بنوں اور آج میری خواہش ہے کہ ایسا کھیل پیش کروں کہ لوگ یاد کریں کہ محمد عمر بھی کوئی باؤلر ہے۔

ایم ایم نیوز:جب سامنے کوئی بڑا کھلاڑی ہو تو دل میں کیا خیال آتا ہے ؟
محمد عمر: باؤلنگ، بیٹنگ یا فیلڈنگ کے دوران سامنے کوئی بڑا کھلاڑی ہو تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنا سو فیصد کھیل پیش کروں اور آئندہ بھی میں یہی کوشش کرتا رہوں گا۔

ایم ایم نیوز:چھوٹے سے علاقے سے بغیر وسائل کے نیشنل لیول پر کیسے آئے ؟
محمد عمر: میٹروول سے نیشنل لیول تک آنے کیلئے میں نے کڑی محنت کی، شروع میں بسوں پر لٹک کر جاتے تھے اور اکثر کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے بس سے اتار بھی دیا جاتا تھا اور لفٹ لیکر گراؤنڈ تک پہنچتا تھا اور پیدل بھی جاتا تھا لیکن ہمت نہیں ہاری۔

دو دو سال تک ایک جوڑی شوز میں گزارا کیا اور آج جب وہ دن یاد آتے ہیں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ میرے نیشنل لیول پر آنے میں میری محنت، صبراور لگن کے علاوہ سینئر ساتھیوں نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے جس کیلئے میں ان کا شکرگزار ہوں۔

Related Posts