وطنِ عزیز پاکستان میں معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات ہماری معاشرتی اقدار اور روایات پر سوالات کھڑے کر رہے ہیں۔ ایسے سوالات جن کا جواب آج کسی کے پاس نہیں۔
ان سوالات میں سے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات کا تدارک، روک تھام اور انسداد کیسے ممکن ہے یا ہم اس جرم کی بیخ کنی کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تعلیم و ترقی کی کمی، پسماندگی اور جہالت ایسے واقعات کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ چند افراد کے جرائم پوری انسانیت کو شرمسار کرنے کے لیے کافی ہیں۔
آٹھ سالہ مدیحہ کا تازہ ترین واقعہ
خیبر پختونخواہ کے علاقے ہنگو میں شام سے لاپتہ 8 سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملنے کے بعد اس کے گھر میں کہرام مچ گیا۔ انکشاف ہوا کہ اسے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔
مدیحہ نامی یہ 8 سالہ بچی شام کے وقت سے گھر سے غائب ہوئی اور ورثاء نے اسے تلاش کرنے کے لیے پوری رات کوشش کی، تاہم وہ اسے ڈھونڈنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ 15 فروری بروز ہفتے کی صبح گاؤں سے دور اس کی لاش مل گئی۔
بچی کے ورثاء کے مطابق مدیحہ کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں جبکہ ابتدائی پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ بچی کا گلہ دبا کر عقب سے فائرنگ کی گئی اور اس پر تشدد بھی کیا گیا۔
ورثاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کرکے سرِ عام پھانسی دی جائے۔ عوام نے احتجاج کرتے ہوئے سڑک بلاک کردی جسے بعد ازاں پولیس افسران نے انصاف کی یقین دہانی کے بعد کھلوایا۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے گزشتہ واقعات
پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی و قتل کے واقعات میں سب سے اہم واقعہ قصور کی معصوم بچی زینب کے ساتھ پیش آیا جس پر پورے ملک کے عوام اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور قاتل کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا۔
اس کے باوجود جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات تھم نہ سکے۔ یکے بعد دیگرے متعدد واقعات رپورٹ ہوتے رہے۔ چند روز قبل نوشہرہ میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ کمسن بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا۔
عوض نور نامی بچی کے والد نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ سے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو میرے سامنے سزا دی جائے، دوسری جانب صوبہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات گزشتہ برس بے حد بڑھ گئے۔
صوبہ پنجاب میں گزشتہ برس صرف 7 ماہ کے دوران 156 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور سزا چند ہی ملزمان کو ملی۔ پولیس نے تفتیش اس طرح کی کہ ملزمان نے آسانی سے ضمانت کروا کر رہائی حاصل کر لی۔
قصہ مختصر، سندھ اور بلوچستان سمیت بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات سے ملک کا کوئی بھی صوبہ محفوظ نہیں اور اس کی وجوہات میں والدین کی لاپرواہی اور بچوں کی درست تعلیم و تربیت میں کمی شامل ہیں۔
ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جسٹس فار مدیحہ آج کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا صارفین واقعے کی شدید مذمت اور حکومت سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
عوام حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ قصور کی زینب اور ہنگو کی مدیحہ کی طرح اور کتنی بچیاں اس طرح جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات میں لقمۂ اجل بنتی رہیں گی؟ صاحبانِ اقتدار غفلت کی نیند سے کب جاگیں گے؟
سوشل میڈیاصارفین نے کہا کہ انصاف میں تاخیر ناانصافی کے مترادف ہوتی ہے۔ ٹوئٹر صارفین نے مطالبہ کیا کہ حکومت قاتلوں کو گرفتار کرکے سر عام پھانسی پر لٹکانے کا سلسلہ جلد شروع کرے۔
مؤثر قانون سازی کی ضرورت
یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں بلکہ اسی ماہِ فروری کا واقعہ ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں 7 فروری کو بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے جرائم پر سرِ عام پھانسی دینے کی قرارداد منظور کی گئی۔
اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اسمبلی میں قانون ساز اراکینِ اسمبلی اہم قومی معاملے پر کام کرنا چاہتے ہیں، تاہم افسوسناک صورتحال یہ پیش آرہی ہے کہ وفاقی وزراء کا ایسے اہم معاملے پر اتفاق دیکھنے میں نہیں آیا۔
ایک جانب وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے قرارداد کی مخالفت کی جبکہ دوسری جانب تحریکِ انصاف کے ہی نمائندے ان کے خلاف کھڑے ہو گئے۔
تحریکِ انصاف کے وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے قومی اسمبلی میں یہ قرارداد خود پیش کی جبکہ سینیٹر فیصل جاوید نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بیان پر انہیں سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لے لیا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ مدیحہ نامی 8 سالہ بچی کے اندوہناک قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سرِ عام پھانسی ہی دی جائے۔
سرِ عام پھانسی قانونی یا غیر قانونی؟
پاکستان میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سرِ عام پھانسی کو روشن خیالی کے منافی سمجھتے ہیں اور اسے غیر قانونی قرار دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں۔